انسداد عصمت دری کی اسلامی تدابیر
حفظ الرحمن قاسمی
جدید علم سماجیات میں انسانوں کو Social Animal (سماجی حیوان) کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان در حقیقت ایک حیوان ہے،اور جانوروں سے صرف اس معنی کر ممتاز ہے کہ یہ فطری طور پر سماجی زندگی گذارنے کا خوگر ہے۔ انسان کی اس تعبیر کا مفہوم اوراس کی حقیقت کیا ہے، اس سے قطع نظر ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ علم سماجیات نے انسان کو تعبیری طور پر ایک جانور تسلیم کیا ہے۔ اس کے برخلاف انسان کی اسلامی تعبیر ’اشرف المخلوقات‘ ہے۔ اس تعبیر کے فرق سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ اسلام کی نگاہ میں انسان کتنا مکرم اور عظیم ہے۔
یہ فطری قانون ہے کہ جو چیز جس درجہ قابل قدر ہوتی ہے، اس کی بقا اور تحفظ کا اہتمام بھی اتنا ہی کیا جاتا ہے، چنانچہ اسلام نے بھی انسان کی جان ، مال اور آبرو کے تحفظ کی خاطر موثر اور مستحکم اصول بنائے ہیں۔ جان کی حفاظت کے لئے قرآن نے قصاص کا اصول پیش کیا ہے (بقرہ: ۱۷۹)جس کے انطباق سے جان کی حفاظت یقینی ہو جاتی ہے۔ مال کی حفاظت کے لئے قرآنی اصول قطع ید ہے (المائدہ: ۳۹) اور جن ممالک میں یہ اصول آئین کا حصہ ہے وہاں چوری کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں۔ انسان کی عزت و آبرو اسلام کی نگاہ میں سب سے اہم ہے اس لئے اسلام نے اس کے تحفظ کے لئے کئی موثر اصول بنائے اور حفاظتی تدابیر پیش کیں۔ اگر ان اصول و تدابیر کو انسان عملی زندگی میں لے آئے تو اس کی عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔
عصمت دری کے حالیہ افسوسناک واقعہ کے پیش آنے کے بعد پوری قوم حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ مجرمین کو سزائے موت دی جائے۔ لیکن اگر اس فعل شنیع کی پاداش میں اسلام کے ذریعہ تجویز کردہ سزا کو قانونی حیثیت دے دی جاتی تو شاید آج مریم کی بیٹیاں اپنی آبرو کی تحفظ کے لئے انڈیا گیٹ اور پارلیمنٹ کے چکر نہ کاٹتیں۔ اسلام کی نگاہ میں عورتوں کی عصمت اس قدر پیاری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ عصمت دری پر حد جاری کرتا ہے(زانی اگرشادہ شدہ ہو تو رجم، ورنہ سو کوڑے)، بلکہ تہمت زنا کو بھی ایک مجرمانہ فعل(Criminal Act) گردانتے ہوئے حد قذف (اسی کوڑے) پیش کرتا ہے۔
یہ حدود اس قدر پختہ اور مستحکم ہیں کہ گناہ کے ثبوت کے بعد ہر حال میں جاری کی جائیں گے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’اپنے اور بیگانے سب کے بارے میں حدوداللہ کو قائم کرو۔ اور اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والے کی ملامت تمھیں دامنگیر نہ ہو۔‘ ( مشکوۃ المصابیح) واضح رہے کہ اس سلسلے میں کسی کی سفارش بھی قابل قبول نہ ہوگی۔ اگر ان حدود کے اجرا کی راہ میں کسی کی سفارش آڑے آتی ہے تو ایسے شخص کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’اس نے اللہ کی مخالفت کی اور جو شخص جانتے ہوئے باطل کے بارے میں جھگڑا کرے گا وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا۔‘ حدیث پاک میں جو شدید لہجہ اور پھر سفارش کی سلسلے میں جو وعید پیش کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام عصمت دری کے جرم کو قابل معافی نہیں گردانتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ دور حاضر کی عام ملحدانہ ذہنیت کے بر عکس اسلام نے زنا بالرضا کو بھی قابل مواخذہ جرم قرار دیا ہے۔ چنانچہ اگر دونوں کی رضامندی کے ساتھ اس فعل کا ارتکاب کیا جائے تو دونوں پر حد جاری کی جائے گی۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں دونوں نے مل کر ایک ایسے اخلاقی نظام کو توڑا ہے جوعائلی نظام کے بقا اور فتنہ کے سد باب کے لئے ضروری تھا۔ مزید یہ کہ زنا بالرضا بھی جبری عصمت دری کی راہ ہموار کرتا ہے۔
زناکاری ایک سنگین جرم: عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس کوتاراج کرنے والے عمل یعنی زنا کی شناعت و قباحت کو سمجھا جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے اس کی سنگینی کوبیان کیا کہ زنا ایک برا عمل ہے۔ پھر برائیوں سے احتراز کرنے کے لئے متعدد آیتوں میں ارشاد فرمایا گیا۔ قرآن نے زنا کی قباحت اور سنگینی کو بیان کرنے لئے’فاحشۃ‘کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ’حد سے آگے بڑھنا‘ ہیں ، تو اب زنا کا مطلب ہوگا اللہ کے قائم کردہ حدود کو پار کرنا۔ اور ہر انسان جانتا ہے کہ حدود کو پار کر کے کسی ممنوعہ علاقہ میں گھس جانا سماج میں کتنا بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے اپنے حدود کا احترام کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے، جب کہ حدود سے تعدی کرنے والوں کو جہنم اور رسوا کن عذاب کی وعید سنائی ہے۔ ( نساء: ۱۴، ۱۵)اسی طرح مختلف احادیث میں نبی کریم ﷺنے زنا کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہیں اس کووبائی امراض کا باعث بتایا (ابن ماجہ)، کہیں قحط سالی کا سبب بتایا (مشکوۃ)، کہیں افلاس کو مستلزم قرار دیا (بیہقی)۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے عذاب کی و عید بیان کی۔
خلاصہ یہ کہ انسداد زنا اور عصمت دری کے لئے قرآن و حدیث نے سب سے پہلی تدبیر کے طور پر اس کی سنگینی اور شناعت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت میں اس سے مرتب ہونے والے نتائج کو بھی واضح کیااور لوگوں کو اس کے دواعی و اسباب کے قریب بھی پھٹکنے سے خبر دار کیا، چہ جائیکہ اس کا ارتکاب کیا جائے۔ ( الاسراء: ۳۳)
بے محابا اختلاط سے احتراز: کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب و عوامل پر غور کیا جائے اور ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔اس لئے کہ اگرتنے کو کاٹنے پر اکتفا کرتے ہوئے جڑ کو چھوڑ دیا جائے تو دیر سویر اس کی کونپلیں زندگی کے آثار پاکر دوبارہ تناوردرخت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اس لئے جب اسلام نے دیکھا کہ عورتوں اور مردوں کا بے محابا اختلاط (Free Intimation)اور تنہائی میں ملنا اکثر و بیشتر نا جائز تعلقات کی راہ ہموار کرتا ہے، تو اس نے عورتوں کی عصمت کی حفاظت کے لئے اختلاط مرد و زن کو ممنوع قرار دیا۔ تجربہ ہے کہ جب تک دونوں جنس آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے قریب نہ ہو جائیں، اس وقت تک معاصی میں مبتلا ہونے کے امکانات پیدا نہیں ہوتے۔ چنانچہ بہت سی احادیث میں نبی کریم ﷺ کی پاک زبان سے اللہ نے اس کی ممانعت کو بیان فرمایا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’غیر محرم عورت پر داخل ہونے سے بچو۔‘ (بخاری و مسلم) یہی نہیں بلکہ اسلام نے دیوروں کے ساتھ بھی تنہائی میں ملنے اور بے تکلف ہونے سے منع کیا ہے۔ نبی کریمﷺسے کسی نے شوہر کے رشتہ داروں سے اختلاط کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کے یہ رشتہ دار تو موت ہیں۔ (مشکوۃ) مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے ان سسرالی رشتہ داروں سے جن کے ساتھ عام طور رشتہ کی نوعیت بے تکلفانہ ہوتی ہے، ایسے ہی ڈرنا چاہیے جیسا کہ موت سے ڈر لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ان سے فتنہ کے وقوع کا امکان زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کا خلوت میں پہونچنا اور ملنا سماج میں معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ایسے دلدوز واقعات سامنے آتے ہیں جن میں نہ صرف رشتہ اخوت کا تقدس پامال ہوتا ہے، بلکہ معاملہ خون خرابہ تک آجا تا ہے۔ اس لئے اسلام نے اس کو ممنوع قرار دیا۔
غض بصر: آنکھیں دل کا دروازہ ہیں۔ جب انسان کسی چیز کو دیکھتا ہے، تو اس کی خصوصیات آنکھوں کے راستے اس کے دل کے نہاں خانوں میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ پھر اگر اس چیز میں اس کے لئے پسندیدگی کا سامان بھی ہو تو اس کے حصول پر دل اسے مجبور کرتا ہے۔ اس لئے عصمت نسواں کے تحفظ کے لئے اسلام نے غیر محرم پر نظر کرنے سے منع کیا۔ ( نور: ۳۱)اگر کسی پر اتفاقیہ نظر پڑ جائے تو اسلامی قاعدہ یہ ہے کہ فورا ہٹا لی جائے، اس پر نظر جما نا یا دوبارہ بالارادہ دیکھنا جائز نہیں۔ (ترمذی شریف)
اسی طرح عورتوں کو بھی تاکید کی گئی کہ وہ غیر محرم مردوں کی طرف نظر نہ کریں۔( نور: ۳۲) اس سے نہ صرف یہ کہ خود ان کے دل میں وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے؛ بلکہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو اپنی طرف دیکھتا ہوا محسوس کرلے تو اس میں فطری طور پربرائی کا ارادہ جنم لیتا ہے اور وہ اس سے قربت کی جرات کرنے لگتا ہے۔ اس سلسلے میں تیسری چیز یہ کہی گئی کہ عورتوں کو اپنے بدن کو چادرسے ڈھانک لینا چاہیے۔( احزاب: ۵۹) اس لئے کہ اگر دو عورتیں ایک جگہ ہوں، ان میں سے ایک مہذب لباس میں ملبوس ہو، جبکہ دوسری نیم عریاں اپنے جسم کی نمائش کر رہی ہو، تو عام طور پر دیکھنے والے کے دل میں بد خیالی دوسری عورت کے تعلق سے ہوگی، جبکہ پہلی عورت کے تعلق سے اس کے دل میں عزت پیدا ہوتی ہے اس کا دل اس کوبد خیالی سے روکتا ہے۔
مہذب لباس:لباس کے کئی مقاصد ہیں، جیسے بدن کا چھپانا، موسم کی تلخیوں سے حفاظت اور زینت۔ لیکن ان میں سب سے پہلا مقصد ستر عورت ہے۔ (اعراف: ۲۷) اور اسی لباس سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے جو نہ تو اتنا باریک ہوکہ جسم پورے طور پر نظر آئے اور نہ ہی اتنا تنگ کہ نشیب و فراز نمایاں ہو۔ لباس کے اعتبار سے انسان کی اصل ترقی یہی تھی، اس لئے اسلام نے اس کو لازم کر دیا۔ اس لئے کہ اس کے علاوہ کسی اور لباس کو اپنانا تنزلی کی جانب واپس لوٹنے کے مترادف ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ ایسا لباس جو جسم کے خاص حصوں کو نمایاں کرے وہ دیکھنے والوں کے دلوں میں برے خیالات پیدا کرتے ہیں اور نتیجتا اس سے عزت خطرہ میں آجاتی ہے۔ اس لئے اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لئے لباس کا ایک خاص معیار متعین کیا، تاکہ لباس کے تمام مقاصد حاصل ہوں۔
استیذان: ذاتیات (Privacy ) ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ کسی کی ذاتی زندگی میں خلل انداز ہو۔ اس لئے اسلام نے معاشرتی زندگی کا ایک قاعدہ یہ بیان کیا کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے لینی چاہیے۔ (نور: ۲۸)اس لئے کہ انسان کا گھر اپنا ہوتا ہے، اور اپنے گھر میں انسان کس حالت میں ہو، کسی کو پتہ نہیں۔ چانچہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت چلا جائے اور گھر کی عورتیں مکمل پردے میں نہ ہو ں تو اس سے معاشرتی نظام بگڑ جاتا ہے۔واضح رہے کہ یہ حکم صرف دوسرے لوگوں ہی کے لئے نہیں؛ بلکہ اگر پورا کنبہ مشترکہ طور پر ایک ساتھ رہتا ہو، تو اس حالت میں بھی گھر کے لوگوں کو یہ حکم ہے کہ داخل ہونے سے پہلے سلام کریں، تاکہ اندر کی عورتیں ہوشیار ہو جائیں، یہاں تک کہ گھر میں رہنے والے بچے جب بلوغ کو پہونچ جائیں اور ان میں صنفی احساس بیدار ہونے لگے تو انھیں بھی سلام کرنا اور اجازت لینا ضروری ہو جاتا ہے۔
تبرج جاہلیہ سے اجتناب:عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔ اور اگر کسی ضرورت کی وجہ سے نکلنا بھی ہو توزیب و زینت کر کے نہ نکلیں۔ (سورہ احزاب: ۳۳) زمانہ جاہلیت میں عورتوں کی عادت تھی کہ وہ گھروں میں کم اور باہر زیادہ ہوتی تھیں اور وہ بھی پورے زیب و زینت کے ساتھ، اس لئے کہ ان کے میں عزت و عفت کی کوئی وقعت نہ ہوتی تھی، اس کو قرآن نے تبرج جاہلیہ سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن یہ چیزباعزت اور شرفا کی عورتوں کے لئے مناسب نہ تھی۔ اس لئے اسلام نے انھیں گھروں میں رہنے کا حکم دیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے انھیں گھروں میں قید کر کے رکھ دیا ہے اور تعلیم و تربیت اور ترقی کے سارے دروازے ان کے لئے بند کر دئے۔ بلکہ بوقت ضرورت انھیں گھروں سے نکلنے اجازت ہے، البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ نکلتے وقت بناؤ سنگار کا اہتمام نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کشش پیدا ہوتی ہے اور وہ ہوس زدہ لوگوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
یہ ہیں وہ تدابیر جو اسلام نے صنف نازک کی عصمت کے تحفظ کے لئے پیش کی ہیں۔ لیکن افسوس کہ آزادی نسواں کا راگ الاپنے والے عناصرنے ان بیش بہا اصولوں کو عورتوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا ذریعہ قرار دیا اور پھر اس کا جو لازمی نتیجہ ظاہر ہوناتھا وہ ہو رہا ہے۔حوا کی بیٹیاں اپنا سب کچھ کھو دینے کے بعدکف افسوس مل رہی ہیں اوراس پر میڈیا اور نیتا اپنی سیاسی روٹی سینک رہے ہیں۔ اسلام نے زانیوں کے لئے جو سزا تجویز کی ہے، اس کو بھی مغربی مفکرین نے ظالمانہ قرار دیا۔ لیکن جب معاشرہ میں ان فتنہ انگیز عناصر کی تباہ کاریاں سر سے اوپر چڑھ جاتی ہیں توزبان خلق سے یہی صدا آتی ہے کہ ایسے مجرموں کو سزائے موت دی جائے۔ اس سے یہ نظریہ اور بھی محقق ہو جاتا ہے کہ اسلام اور اسلامی اصول فطری ہیں۔ دنیا اس سے چاہے جتنی دور چلی جائے، ایک دن چار و ناچار اسے اپنی فطرت پر لوٹنا ہی پڑتا ہے۔اس لئے آج یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے پاس ناموس نسواں کے تحفظ کا کوئی سامان نہیں ہے، اگر عزت کی حفاظت درکار ہے تو اسے اسلامی تدابیر کو اپنانا ہی پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment