Friday 4 October 2013

ذی الحجہ

عشرہ ذی الحجہ: ایک عظیم نعمت خداوندی
حفط الرحمن قاسمی
مرکز المعارف، دہلی

تمہید: اس کرہ ارض اور اس پر پھیلی ہوئی تمام چیزوں کا تنہا خالق و مالک اللہ ہےاور وہ اپنی مخلوقات میں ہر نوع کے تصرف کا حق رکھتا ہے، چنانچہ اس نے بعض انسانوں کو دوسروں سے اعلی ٹھہرا یا، بعض مقامات کو دوسری جگہوں سے افضل قرار دیا اور بعض زمانوں اور اوقات کو دوسرے زمانوں اور اوقات پر فوقیت و برتری عطا فرمائی۔ ان مخصوص اوقات و مقامات میں کیا گیا ادنی سا نیک عمل بسا اوقات عام زمان و مکان میں کئے گئے بڑے اعمال سے بھی ثواب میں سبقت لے جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسلامی تقویم کے آخری ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔
فضیلت: ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کو خدا نے سال کے دیگر اوقات کے مقابلہ میں امتیازی شان کا حامل قرار دیا۔ متعدد آیات و احادیثہ ان دنوں کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سے بھی ان ایام کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔چنانچہ ان دنوں میں کئے گئے اعمال کا ثواب بھی عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجا تا ہے۔ ذیل میں قرآن و احادیث سے وہ دلائل  پیش کئے جاتے ہیں جن سے ان ایام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
اول: قرآن کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے "والفجر ولیال عشر" (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی)یہاں دس راتوں سے کون سی راتیں مراد ہیں؟ امام بغوی نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت مذکور میں دس راتوں سے مراد  ذی الحجہ کی ابتدائی راتیں ہیں۔ یہی رائے دیگر مفسرین مثلا  قتادہ، مجاہد، ضحاک،سدی اور کلبی رحمہم اللہ کی ہے۔
"تفسیر ابن کثیر" میں "لیال عشر" کی مراد کے سلسلے میں  مفسر نے مختلف ائمہ تفسیر کی رائے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے، اور تائید کے طور پرمسند احمد سےایک روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن العشر عشر الأضحى.  ( عشر سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ ہے۔)
ان تمام ائمہ تفسیر کی رائے جان لینے کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آیت مذکور میں "لیال عشر" سے مراد ذی الحجہ کے عشرہ کی راتیں ہیں۔ اب غور کیا جائے کہ اللہ رب العزت ان آیات میں فجر اور دس راتوں کی قسم کھا رہا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ لوگ اسی چیز کی قسم کھاتے ہیں جو ان کے نزدیک مہتم بالشان ہوں۔ چنانچہ یہ راتیں کس قدر اہمیت کی حامل ہونگی کہ اللہ  خود ان کی قسم کھا رہا ہے۔ اس لئے یہ خیال اپنی جگہ بجا اور مستند ہے کہ ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں دیگر راتوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔
دوم: قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے "الحج أشھر معلومات" (حج کے مہینے معلوم و متعین ہیں۔) حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ" ذو الحجہ کے دس دنوں کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ معلوم مہینوں کا آخری حصہ ہیں اور وہ مہینے حج کے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا  "الحج أشھر معلومات" اور وہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔"
صاحب تفسیر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ "أشهر معلومات"سے امام ابوحنیفہ، امام شافعی کے اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کے مطابق شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن مرادہیں۔ اور صاحب تفسیر کی بھی یہی رائے ہے۔ مزید براں یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ "أشھر معلومات" سے مراد شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کا عشرہ ہے۔ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ حج کے مہینے شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کا عشرہ ہیں۔) حج کرنااس قدر عظیم المرتبت عمل ہے کہ یہ  ہر ذی شعور مسلمان کی پہلی مذہبی و روحانی تمنا ہوتی ہے۔چنانچہ وہ ایام  جن کو قرآن نے"حج کے مہینے"  قرار دیا ہے، کس قدر با برکت و با عظمت ہونگے۔ اور یہ بات مندرجہ بالاتشریحات سے ثابت ہو چکی ہے کہ حج کے مہینے شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اس لئے عشرہ ذی الحجہ کے افضل و بابرکت ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا، کیونکہ اسی عشرہ کے ساتھ حج کے مہینے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔
سوم:  اللہ تعالی کا  فرمان ہے "ویذکر اسم اللہ فی أیام معلومات۔" (اور معلوم دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں۔) اس آیت میں اللہ پاک نے صراحت کے ساتھ متعین ایام میں اپنے ناموں کا ذکر کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس سے ان ایام کی فضیلت واضح طور پر متحقق ہوجاتی ہے۔ ان ایام سے بھی وہی عشرہ ذی الحجہ مراد ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ مزید یہ کہ   دیگر مفسرین مثلا حسن، عطاء، عکرمہ، مجاہد، قتادہ اور شافعی رحمہم اللہ سے بھی آیت مذکور کی یہی تفسیر منقول ہے۔ خداے تعالی کے انسانوں پر بے شمار احسانات ہیں، اس لئے ذکر الہی توبندوں پر ہر روزہمہ وقت  لازم ہے، لیکن مولائے کریم کا اپنی یاد کے لئے کچھ دنوں کا خصوصی طور پر ذکر فرمانا یقینا ان دنوں کی رفعت و عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
ان تینوں آیات  میں غور کرنے کے بعد ذی الحجہ کے اول عشرہ کی فضیلت و برکت ثابت ہوجاتی ہے اور عمل کرنے والوں کے لئے کافی ہے، تاہم ہمارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث بھی ہیں جو کھلے لفظوں میں ان ایام کی عظمت و رفعت کو بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ما من أیام العمل الصالح فیھن أحب الی اللہ من ھذہ الأیام العشر۔ فقالو: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا الجھادفی سبیل اللہ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ولا الجھاد فی سبیل اللہ إلا رجل خرج بنفسہ و مالہ ولم یرجع من ذلک بشی۔  (ان دس دنوں سے زیادہ بہتر کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے، (یعنی سب کچھ اسی راہ میں قربان کردے)۔
حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: "جب ان دس دنوں میں کیا ہوا نیک عمل بارگاہ الہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے، تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی دوسرے دنوں کی بلند درجہ کی نیکی سے افضل ہوگی۔ اسی لئے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ کیا سال کے بقیہ دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی دربار خدا وندی میں ان دنوں کے عمل سے زیادہ عظمت والا اور عزیز نہیں؟ تو آپ نے جواب دیا "نہیں۔"
ایک دوسری حدیث میں جس کو احمد اور دارمی نے نقل کیا ہے، نبی  کریم نے فرمایا: ما من عمل أزکی عند اللہ عز و جل ولا أعظم أجرا من خیر یعملہ في عشر الأضحی۔ قیل: ولا الجھاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجھاد في سبیل اللہ عز و جل إلا رجل خرج بنفسہ و مالہ فلم یرجع من ذالک بشی۔ (کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو اللہ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے نیک عمل سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب والا ہو۔ کہا گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں البتہ اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈال دیا اور کچھ واپس نہ لا سکا۔ )
اسباب: اللہ تعالی ہر چیز کا تنہا خالق و مالک ہے۔ وہ کبھی ذروں کو آفتاب و ماہتاب بنا دیتا ہے، اور کبھی کبھی اوج ثریا جیسی رفیع الشان قدر و منزلت کی حامل شے کو قعر مذلت  میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ جب چاہے کسی بھی چیز کو دوسری ہم جنس اشیاء پر فوقیت و برتری عطا کر سکتا ہے، چنانچہ اگر عشرہ ذی الحجہ کو سال کے دیگر ایام پر فضیلت بخشی گئی تو کوئی تعجب کا مقام نہیں۔ لیکن اس دنیا کا نظام اسباب کے ماتحت ہے، اس لئے انسان ہر چیز کی علت تلاش کرتا ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے سبب کے سلسلے میں بھی علمانے کچھ نکتے بیان کئے ہیں۔  اس بارے میں حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ: عشرہ ذی الجحہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات جو کہ نماز، روزہ، صدقہ اور حج ہیں، وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتی۔"
اس عشرہ کی فضیلت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسی میں یوم عرفہ ہے جس میں اللہ تعالی نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کا اتمام کیا۔ اور ظاہر ہے کہ جس دن کسی بھی شخص کو کوئی بڑی نعمت حاصل ہوتی ہے وہ دن اس کے لئے دائمی طور پر یادگار بن جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سےکہا:تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہ، وہ اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے یوم نزول کو عید مناتے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت؟   اس نے جواب دیا: الیوم أکملت لکم ...۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا: قد عرفنا ذالک الیوم والمکان الذی نزلت فیہ علی النبی صلى الله عليه وسلم و ھو قائم بعرفۃ یوم جمعۃ۔  (ہمیں وہ دن اور جگہ معلوم ہے جہاں یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں تھے اور جمعہ کا دن تھا۔ )
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کی ایک علت یہ بھی ہے کہ اس کا آخری دن "یوم النحر" ہے ، جس کے بارے میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفضل الأیام عند اللہ یوم النحر و یوم القر۔ (اللہ کے نزدیک سب سے بہترین دن یوم نحر اور یوم قر ہے۔) یوم النحر سے مراد قربانی کا دن ہے اور یوم القر کے معنی ہیں 'ٹھہرنے کا دن' اور اس سے مراد گیارہویں  ذی الحجہ ہے، کیونکہ حجاج اس دن منی میں ٹھہرتے ہیں۔ اس حدیث میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر کی فضیلت بیان فرمائی ہے، اور یہ یوم نحر ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کا ہی ایک حصہ ہے، لہذا یوم نحر کی وجہ سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔
خلاصہ: مذکورہ  آیات و احادیث سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، اولیاء عظام اور علماء مخلصین ان ایام میں پورے اہتمام کے ساتھ خدائے پاک کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے نزدیک زندگی کا مطمح نظر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنا تھا، چنانچہ وہ ہر ان مواقع اور مقامات کے متلاشی رہتے تھے جہاں اعمال کا ثواب معمول سے زیادہ ملتا ہے، تاکہ وہ ان با برکت اوقات و مقامات میں اللہ کی مخصوص عبادت کے ذریعہ اپنے لئے توشہ آخرت تیار کر سکیں۔ لیکن ان کے برخلاف عامۃ المسلمین میں اس طرف سے بے انتہا کوتاہی کا ظہور ہوتا ہے۔ اس لئے عام مسلمین کو بھی چاہیے کہ اللہ نے ہمیں جو قیمتی موقع عنایت فرمایا ہے، اس سے تا حد استطاعت استفادہ کریں اور درگاہ خدا وندی میں حصول تقرب کے لئے سعی کریں۔  ذیل میں وہ اعمال دیے جاتے ہیں جن کو ان دنوں میں کرنے کی فضیلت آئی ہے۔
کثرت ذکر: اس عشرہ میں تکبیر و تحمید اور تہلیل کا بکثرت ورد کرنا مسنون ہے۔ حدیث پاک کا ارشاد ہے: ما من أیام أعظم عند اللہ ولا أحب إلیہ العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروفیھن من التھلیل و التکبیر و التحمید۔ ( اللہ کے نزدیک ان دس دنوں میں عمل صالح کرنا جس قدر محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں محبوب نہیں ہے، اس لئے تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو۔)
تکبیرات کے صیغے اور الفاظ  ہیں: (۱) أللہ أکبر أللہ أکبر کبیراً۔ (۲) أللہ أکبر اللہ أکبر لاإلہ إلا اللہ واللہ أکبر اللہ کبر وللّٰلہ الحمد۔تکبیر دو طرح سے کہنا مشروع ہے۔ (۱) تکبیر مطلق (۲) تکبیر مقید۔ تکبیر مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں، گھروں اور ہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے تکبیر کہتا رہے۔ اس کا قت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ تکبیر مقید یہ  ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیا جا ئے اور ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیر کہتا رہے۔مرد بآواز بلند تکبیر کہیں گے اور عورتیں آہستہ آہستہ تکبیریں کہیں گی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم تکبیر پکارتے ہوئے بازار میں نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ تکبیر سن کر لوگوں کو تکبیر یاد آجائے اور وہ بھی کہنا شروع کر دیں۔ ہاں ایک بات مد نظر رہے کہ بیک آواز اجتماعی تکبیر نہ پکارا جائے کیوں کہ ایسا کرنا مشروع اور جائز نہیں ہے، بلکہ ہر آدمی انفرادی تکبیر پکارے۔
آج تکبیر کہنے کی سنت ہمارے درمیان سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بہت کم لوگوں کو آپ تکبیر کہتے ہوئے سنیں گے۔ اس لئے سنت کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں کثرت سے تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس مردہ سنت کو زندہ کیا تو یقین جانئے اس میں ہمارے لئے عظیم ثواب ہے۔ فرمان نبوی ہے: "جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی، تو اس کے لئے ان لوگوں کی مانند ثواب ہے جنھوں نے اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔" اس لئے ہمیں ذی الحجہ کے ان ابتدائی دنوں میں کثرت سے اللہ رب العزت کی بڑائی، بزرگی اور اس کی تحمید و تقدیس بیان کرنی چاہئے۔
روزہ رکھنا: ان دس ایام میں کوئی بھی نیک عمل معمول سے زیادہ ثواب رکھتا ہے، اور روزہ تو ایک عظیم الشان عمل ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ "روزہ کا بدلہ میں خود ہوں۔" اس لئے ان ایام میں روزہ رکھنا عظیم سعادت اور ثواب کا ذریعہ ہے۔ مزید براں یہ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزہ رکھنا ثابت ہے۔ازواج مطہرات سے مروی ہے: کان رسول اللہ یصوم تسع ذی الحجہ و یوم عاشوراء و ثلاثۃ أیام من کل شھر۔  (نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو دن، عاشورا کے دن اور ہر مہینے کے تین دن روزہ رکھتے تھے۔) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: أربعٌ لم تکن یدعہن النبي - صلی اللہ علیہ وسلم- صیام عاشوراء، والعشر، وثلاثة أیام من کل شہر، ورکعتان قبل الفجر. ( چار عمل ایسے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہ کیا کرتے تھے۔ عاشورا کا روزہ، ایک سے نو ذی الحجہ تک کا روزہ، ہرمہینہ کے تین دن کا روزہ اور فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت۔)
خلاصہ یہ کہ ذوالحجہ کے نو دنوں کا روزہ رکھنا مسنون اور با برکت عمل ہے، لیکن مسلمانوں نے اس کی طرف سے بڑی غفلت برتی ہے جو عین محرومی کی بات ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو اس سنت عظیمہ کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ ہمیں توفیق بخشے۔ اس کے علاوہ خاص طور سے یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے۔ احادیث پاک میں صراحت کے ساتھ اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالا اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنادے۔"
یوم عرفہ میں دعا کرنا: عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیا نے کی ہے وہ ہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر۔"  ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یوم عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔  اس لئے جو لوگ حج پر نہ بھی گئے ہوں، انھیں بھی چاہیے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں۔

سچی توبہ: یوں تو تمام اوقات میں مسلمانوں پر توبہ کرنا واجب ہے، لیکن سنہرے اوقات اور مباراک ساعات میں توبہ کی اہمیت اور بھی مزید ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس عشرہ کو غنیمت جان کر اللہ کے سامنے سچی توبہ کرنا چاہیے اور توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لئے کہ کوئی نہیں جانتا کی کہ کس وقت یہ زندگی کا چراغ گل ہو جائے۔ اور اگر کسی مسلمان کو اس سنہرے ایام اور مبارک اوقات میں نیک اعمال کی بجاآاوری کے ساتھ ساتھ سچی توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے، تو یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ فرمان الہی ہے: فأما من تاب و أمن و عمل صالحا فعسى أن يكون من المفلحين (ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے، یقین ہے کہ وہ کامیاب لوگوں میں ہوگا۔)

Fazilat of Dhil Hijjah

The first Ashara of Dhil Hijjah
Great Blessing of Allah
By: Hifzur Rahman Qasmi
Allah alone is the Supreme Owner and Creator of everything, living and non living, on this vast earth and He reserves all the right to disposal in them. Thus, He granted special position to some people over others; made some places nobler than others and declared some times more blessed as compared to others. Therefore many little good deeds done at such occasion, sometimes, carry much more reward and value than great deeds done at normal times. One of such occasions is the first Ashara, ten days Dhil Hijjah, the last month of the lunar calendar.
Allah Almighty has granted the first ten days of Dhil Hijjah special status and honor. Many verses of the Glorious Qur’an and Ahadith of the Prophet (saws) have appeared speaking of their glory; while the actions of the Companions also establish their nobility. Thus, the reward of the good deeds performed on this occasion surpasses the reward of the acts done in normal days. In the following paragraphs, let’s analyze the evidences from the Glorious Qur’an which speak of superiority of these days.
FIRST:  Allah Almighty says in the Glorious Qur’an والفجر وليال عشر (By the dawn, and by ten nights) which nights are referred here? Imam Baghawi writes that Hazrat Abdullah ibn Abbas (ra) narrates that the phrase “Ten Nights” refers to the beginning ten nights of Dhil Hijjah. He same has been opined by other exegesis scholars like Qatada, Mujahid, Zahhak, Suddi and Kalbi (ra).
After quoting the opinions of different scholars on the intended meaning of the “Ten Nights”, the author of “Tafseer Ibn Kathir” writes “The true is that the first ten days of Dhil Hijjah is intended here.” He also quotes a narration from Musnad Ahmad to support his opinion which reads: “The Prophet (saws) said, “The ten refers to ten days of Dhil Hijjah.”
Coming across to the opinions of these scholars, it gets established that the “Ten Nights” in the above mentions verse of the Glorious Qur’an refers to the whole ten days of the month of Dhil Hijjah. Now the notable point here is that Allah Almighty Himself is taking oath by the “Dawn” and the “Ten Nights”; while the fact is that the oath is taken only by the things which reserves utmost love and importance. Thus, the importance of these nights gets crystal clear, as Allah Himself took oath by them. This perfectly establishes the idea that these days hold paramount importance in the eyes of Allah.
SECOND:  At another place, Allah says: الحج أشهر معلومات (The Hajj is (in) the well-known months) Hafiz Ibn Rajab Hambali (ra) writes: “One of the causes of the blissfulness of the first ten days of Dhil Hijjah is that these are the last portion of the “well-known” months; and these are the months of Hajj about which Allah said “الحج أشهر معلومات” These months are Shawwal, Dhil Qa’da and the first ten days of Dhil Hijjah.
The author of Tafseer Ibn Kathir says that the “well-known” months, according to Imam Abu Hanifah, Imam Shafee and Imam Ahmad Ibn Hambal (ra), refer to Shawwal, Dhil Qa’da and Dhil Hijjah. Moreover, the author himself seems to be inclined to this very opinion. In addition to that, Imam Bukhari (ra) has reported a hadith in his Sahih from Ibn Umar (ra) which clearly reads: “The months of Hajj are Shawwal, Dhil Qa’da and (first) ten days of Dhil Hijjah.”
Performing Hajj is such a sacred act that it holds the place of first religious and spiritual wish for every sensitive Muslim. Thus, the days which have been declared as the “Months of Hajj” by the Glorious Qur’an itself will surely hold significance and sacredness. While the above mentioned face have fully proved that the first ten days of Dhil Hijjah is also among the months of Hajj. They, therefore, undoubtedly make a sacred and blissful occasion for Muslims to act and get rewarded.
THIRD:   Allah says: ويذكرسم الله في أيام معلومات (And recite the Name of Allah in specified days.) In this verse, Allah Almighty has explicitly enticed His slaves to recite His Names in specified days. This undoubtedly establishes the blissfulness of these days. Now the question is that what are these specified days? Again the answer is “First ten days of Dhil Hijjah”. Imam Bukhari (ra) reports a hadith from Ibn Abbas (ra) which reads, “These specified days refer to the first ten days of Dhil Hijjah.” Moreover, the same opinion has been expressed by other exegesis scholars, such as Hasan, Ata, Ikramah, Mujahid, Qatadah and Shafi (ra).
Human beings owe a great deal of favor from Allah Almighty. It, therefore, gets compulsory for human to recite the Name of his Beneficent Lord each and every time. Yet the Benevolent Creator has specified a span of time for the recital of His Name, which definitely lays foundation for these days to be sacred.
After pondering over these verses of the Qur’an, the sacredness of the first ten days of Dhil Hijjah is proved and provides sufficient ground for those who want to achieve nearness of Allah. Yet we have some ahadith of the Prophet (saws) as well, which clearly speak of the sacredness of these days. Some of them are mentioned here.
The Prophet (saws) says: “No day is better than these ten days in which the good deeds are more beloved to Allah. The Companions asked if the Jihad in way of Allah also is not (so beloved). The Prophet (saws) replied, “Not even the Jihad in the way of Allah, but the Jihad of the one who gets out in the way of Allah with his life and wealth but returns with nothing.”
Explaining this hadith, Hafiz Ibn Rajab Hambali (ra) writes: “When the good deeds done on this occasion is more beloved to Allah as compared to the deeds done in normal days of the year, the little acts of these days will bring much more reward than the high acts done in other days. This was the reason why the Companions asked if the Jihad performed in other days of the year is also not so beloved. The Prophet (saws) replied, “Not”.
Another hadith which has been recorded by Ahmad and Darmi reads: “There is no act more purified to Allah and more reward-fetching than the acts done during the first ten days of Dhil Hijjah. He was asked, “even the jihad in the way fo Allah?” he replied, “Even the jihad in the way of Allah, but the jihad of the person who goes out with his life and wealth and does not return with anything.”
Causes of Fazeelat:
Allah alone is the creator and owner of everything. He sometimes takes the things of least importance to the high in the sky, while at the other time He brings the things of high respect and honor down to earth. Whenever He wants, He grants superiority to something over the things of similar kind. Thus, this no surprising matter, if he granted superiority to the ten days of Dhil Hijjah over normal days of the year. But the things of this world have been constituted under the system of cause and effect. Therefore, the man is always in search of the reasons and causes to every happening. About the sacredness of the first ten days of Dhil Hijjah, the scholars have given some reasons. Hafiz Ibn Hajar (ra) says, “The reason of the ten days of Dhil Hijjah being so sacred and distinct seems that all the basic worships like Namaz, fast, Sadaqa and Hajj gather in these days; and they do not gather in other days.”
One the reasons of the Fazeelat of these ten days is that the days Arafah occur during them on which Allah Almighty completed the Faith and and His bounties upon Muslims. Naturaly the days on which somebody get a memorable bounty gets memorable for him. Imam Bukhari (ra) has recorded a hadith from Umar (ra). A Jew said to Umar (ra) that your book consists of the verse which you read. If this verse would have been revealed to us, we would celebrate of the day of its revelation. Hazrat Umar (ra) asked, “Which verse?” He replied: اليوم أكملت لكم دينكم... Umar (ra) says, “We know the day and the place on which this verse was revealed. The Prophet (saws) was staying at Arafa and it was Friday.
One reason to it is that the last day of them is the day sacrifice about which the Prophet (saws) said that the most beloved day to Allah is the day of sacrifice and stay. This hadith clearly establishes the Fazeelat of the day of sacrifice which is the last day of the first ten days of Dhil Hijjah. Thus, the sacrifice day makes the whole ten days special.
Conclusion:
The above mentioned verses and ahaidth make the Fazeelat of the ten days of Dhil Hijjah crystal clear. This is the reason why the blessed companions, mystic men and sincere Ulama would take great care of worship during these days. To these blessed persons, the sole purpose of life was to achieve the pleasure of Allah. Therefore, they always were in quest of the places and times in which the rewards of things get increased to many fold, so that they could prepared the provisions for their afterlife journey by doing special deeds and worships. In sharp contrast to them, common Muslims show drastic carelessness towards such auspicious occasions, which leads them to irreparable loss. Therefore, they should also try to avail these occasions and achieve the nearness of Allah. In following line, the good deeds which have been prescribed to perform are being mentioned.
Dhikr of Allah’s Name:
During these days, it is msnoon to excessively recite takbeer, tahmeed and tahleel. According to a hadith, the Prophet (saws) said, “To perform the righteous deeds in these days is such a great and beloved act to Allah that no any other days. You should, therefore, recite excessively لا إله إلا الله، الحمد للہ and اللہ اکبر.
The wordings of the takbeer for these days are: (1) اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا (2) اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ Takbeer is permissible in two ways: (1) Takbeer Mutlaq (Abdolute Takbeer) which to means to recite the takbeer evertime at every place where and when it is allowed to recite the name of Allah. Its time begins from sighting the moon of Dhil Hijjah. (2) Takbeer Muqayyad (Defined Takbeer). Its time begins from the Fajr of ninth Dhil Hijjah and lasts till the Asr of 12th Dhil Hijjah. It should be recited specially after every Namaaz. Men should recite it in high tone, while the women are suggested to recite in low tone.
In today’s world, the Sunnah of reciting takbeer has vanished. Very few people are seen taking care of the takbeer. We should, therefore, take care the takbeer to revive a sunnah of the Prophet (saws). The Prophet (saws) is reported to have said, “The one who revived a sunnah of mine which had been left, he will get reward equal to those who actually performed it without any cut up from the reward of the practitioner.” Therefore, we should excessively recite the names of Allah during these days.
Keeping Fast:
During these days, any good deed fetches much more reward than normal acts. As far as the fast is concerned, it is so great an act that Allah says, “I Myself am the reward for fast.” Keeping fast, therefore, becomes a great source of reward during these days. Moreover, the Prophet (saws) himself is reported to keep fast in the first nine days of Dhil Hijjah. The blessed mothers of the believers narrate, “The Prophet (saws) used to keep fast in the first nine days of Dhil Hijjah, on the days of Aashura and three days every month.” Hafsa (ra) says, “Four things, the Prophet (saws) would not skip: the fasts of Aashura, first nine days of Dhil Hijjah, three days every month and two rak’ats before Fajr.”
In short, keeping fast in the nine days of Dhil Hijjah is masnoon and a blessed act. But Muslims have brushed it asid which is indeed deprivation of the great bounty. Apart from that, the fast of the ninth Dhil Hijjah is specially sunnah. The ahaidth clearly speaks of its blissfulness. Hazrat Qatada (ra) reprts that the Prophet (saws) said, “keep fast on the day of Arafa. I hope Allah makes it Kaffarah for sin of one previous and one later years.”
Supplication on the Day of Arafa:
It is such a blissful act to supplicate on the day of Arafa. The Prophet (saws) is reported to have said, “The best of all supplications is that which is done on the day of Arafa and the most blessed supplication which I and the Prophet before me have done is لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ولہ الحمد و ھو علی کل شیئ قدیر. Ibn Abdul Bar (ra) says that this hadith also points out to the fact that the prayers of the day of Arafa are mostly answered. Therefore, even those who did not go for hajj should make special supplications on this day.
True Repentance:

It is obligatory on every Muslim to repent to Allah every time. But its importance is increased even more on auspicious occasions. We should, therefore, take this Ashara as a golden opportunity to repent and we must not delay in it. The reason is that we never know when to leave this earthly world for the eternal one. If a Muslim is enabled to repent to Allah with sincerity, he indeed is a blessed person.

Monday 25 March 2013

آداب معاشرت: اسلام کا ایک فراموش کردہ باب



از: حفظ الرحمن قاسمی

مرکز المعارف، دہلی

اسلام کے پانچ شعبے ہیں: عقائد(Belief)، عبادات(Worship)، معاملات(Dealings)، اصلاح باطن(Spirituality or Inner Reformation) اور آداب معاشرت(Civic Sense)۔ اسلام کی تکمیل اور اس کے ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی اسی وقت مسلم الثبوت ہو پائے گا جب کہ ان تمام شعبوں کوعین دین سمجھ کر انھیں عملی زندگی کا حصہ بنالیا جائے۔ لیکن افسوس کی با ت یہ ہے کہ مسلمانوں میں عوام الناس نے تو صرف عقائد و عبادات کے باب کو ہی مکمل دین سمجھا ، جب کہ علماء ظاہر نے اپنے خیال اور دائرہ عمل کو مزید وسعت دیتے ہوئے معاملات کے حصہ کو بھی د امن مذہب میں پناہ دی۔ اس کے بعد ایک طبقہ ہے اہل تصوف کا جنھوں نے مزید کرم فرمایا اور اصلاح باطن کو بھی دین کا حصہ خیال کیا۔ لیکن پانچواں حصہ آداب معاشرت وہ ہے جس کو نظریاتی (Theoretically)اعتبار سے گرچہ کچھ لوگ ضروری اور دین کا حصہ شمار کرتے ہوں؛ لیکن عملی طور پر (Practically) تقریبا تمام مسلمانوں نے اسے نظر انداز کر دیا ہے ، حالانکہ بعض اعتبار سے یہ عبادات سے بھی اہم ہو جاتا ہے۔ 
آداب معاشرت کا مطلب وہ رہنما اصول اور طریقہائے کارہیں جنھیں معاشرہ میں زندگی گذارتے وقت ہر فرد کو مد نظررکھنا چاہیے تاکہ وہ معاشرہ صالح ،صحتمند اور خوشگوار ہو سکے۔ جب بھی کسی معاشرہ میں ان اصول کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہاں بد عنوانی ، اضطراب، آپسی تنازع اور انفرادی اور اجتماعی کش مکش جیسے تباہ کن حالات جنم لیتے ہیں اور اس سماج میں جینے والے ہر فرد کو اپنے منفی اثرات کے حصار میں لیتے ہوئے زندگی کو موت سے زیادہ خطرناک بنا دیتے ہیں۔دوسری طرف اگر آداب معاشرت اور سماج کو خوشگوار بنانے والے ان سنہرے اصول کو مد نظر رکھ کر زندگی گذاری جائے تو اس سماج میں کسی کو کسی سے کوئی گلہ نہ ہوگا، چنانچہ وہاں آپسی تنازع اور جھگڑے لڑائی کے امکانات نہ کے برابر ہونگے۔وہاں محبت و الفت ہوگی،ہمدردی و غمخواری ہوگی، اخوت و برادرخوانگی ہوگی، مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوگی؛ خلاصہ کلام یہ کہ وہ سماج جنت نظیر ہو جائے گا۔ 
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را با کسے کارے نہ باشد 
کسی بھی سماج کو خوشگوار بنانے کے لئے اس میں بسنے والے انسانوں کا آداب معاشرت کے تئیں بیدار ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے اسلام میں اس کو ایک مستقل شعبہ قرار دیاگیا اور اس کے ہرہر پہلو کو نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ۔ اصولی طور پر حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا ’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘(سچا پکا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔) (صحیح بخاری حدیث نمبر6484 ) یہ حدیث اسلامی آداب معاشرت کی بنیاد ہے ۔ گو کہ اس میں کمال اسلام کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کے قولی اور فعلی شرور سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، لیکن دیگر احادیث ایسی بھی ہیں جن میں مطلقا پڑوسیوں کی ایذا رسانی سے منع کیا گیا ہے۔ جیسے ایک مرتبہ آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا’ خدا کی قسم وہ مومن کامل نہیں ہو سکتا۔‘ تو صحابہ نے دریافت کیا ’کون مومن نہیں ہو سکتا،اے اللہ کے رسول؟‘ تو نبی کریم ﷺ نے جواب دیا’ وہ شخص جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘(صحیح بخاری حدیث نمبر 6016)اس حدیث میں مطلقا پڑوسی کو محفوظ رہنے کی بات کی گئی ہے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی شرط نہیں ۔ اسی بنا پر محدثین اول الذکر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں مسلمون کا لفظ محض مسلمانوں کی اشرفیت کی بنا پر استعمال کیا گیا ہے ، ورنہ کسی غیر مسلم کو بھی بلا وجہ ایذا دینا شرعا جائز نہیں۔ چنانچہ ایمان اور اسلام کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ بندہ کے کسی بھی عمل سے اس کے کسی ساتھ کو کوئی تکلیف نہ پہونچے۔تو اسلامی آداب معاشرت کا بنیادی اصول یہ قرار پاتا ہے کہ انسان کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی کوئی ایسا عمل انجام نہ دینا چاہیے جو دوسروں کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی کا باعث بن جائے۔ 
آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے پورے ذخیرہ میں آداب معاشرت کے تعلق سے جو بھی تعلیم دی گئی ہے وہ اسی اصول کی فرع اور اجمال کی تفصیل ہے۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ 
انسان فطری طور پر سماجی زندگی گذارنے کا خوگر ہے۔ سماج میں زندگی گذارتے وقت اسے ایک دوسرے سے مختلف قسم کی ضروریات پیش آتی ہے جن کی تکمیل لئے وہ دوسروں سے ملنے پر مجبور ہوتا ہے؛ لیکن کسی سے ملتے وقت بھی انسان کو اس کی راحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کوئی ایسا طریقہ ہر گز اختیا نہ کیا جائے جس سے سامنے والے فرد کو ایذا پہونچے۔ اس لئے قرآن کریم نے اس کا طریقہ یہ بتا یا کہ اگر کسی کے یہاں جاؤ تو سیدھے اس کے گھر میں بے دھڑک داخل مت ہو جاؤ بلکہ باہر سے سلام کرو پھر داخلے کی اجازت طلب کرو۔ اگر اجازت مل جائے تو جاؤ ،ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔(سورہ النور: 27-28 ) اگر اہل خانہ کسی وجہ سے اجازت نہ دیں تو اس سے بد دل نہ ہونا چایئے۔ 
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں زندگی گذارتے وقت ایک انسان کو اپنے دوسرے ساتھیوں کی راحت کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ یہ تعلیم اس لئے دی گئی ہے کہ ہم بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہوجائیں اورمبادااس کی وجہ سے انھیں کوئی تکلیف لاحق ہوجائے، اس لئے کہ اس سے اس کی ذاتیات (Privacy ) میں وقوع خلل کا اندیشہ ہے۔ لیکن اس تعلیم کے بر خلاف ہمارا عمل یہ ہے کہ اولا تو ہمیں اجازت لینا گوارہ نہیں، اگر لے بھی لی توہم اہل خانہ کی طرف سے مثبت جواب کے اس قدر شدیدخواہاں ہوتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو پھر ہم ان پر ہمیشہ کے لئے بد اخلاقی و ملعونیت کالیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ 
مذہب اسلام کی شان یہ ہے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی باتوں کے تعلق سے بھی اطمینان بخش ہدایات ملتی ہیں۔چنانچہ ایک حدیث میں ملاقات کے تعلق سے ہمیں ایسی تعلیم ملت ہے جس کی نظیر دوسری جگہوں پر شاید مشکل سے مل سکتی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نبی کریم ﷺ کے در دولت پر حاضر ہوئے اور دستک دی۔ اندر آواز آئی’ کون؟‘ حضرت جابر نے جواب دیا’ میں ہوں‘ آپ ﷺ نے نا گواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’میں ہوں! میں ہوں!‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر 6250 )مقصد یہ تھا کی انسان جب بھی کہیں جائے تو اپنا تعارف مہمل الفاظ میں نہ کرائے۔ اس سے اس کی شخصیت سامنے والے پر بالکل واضح نہیں ہوپاتی اور اس کے نتیجہ میں سامنے والے کے ساتھ ساتھ خود اس شخص کو بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اسلام نے اپنے ماننے والوں میں راہنمائی کی ہے۔ 
سماج میں زندگی گذارتے ہوئے انسان کو دوسروں کے لئے آسانی یا پریشانی پیدا کرنے کے سلسلے میں کس قدر محتاط رہنا چاہیے اس کا اندازہ اسلام کی اس تعلیم سے لگتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صریح حدیث میں لوگوں کو خام پیاز اور لہسن کھاکر مسجد میں جانے سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم حدیث نمبر564) اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی بدبو سے فرشتوں اور دوسرے انسانوں کو تکلیف پہونچتی ہے۔ اس حدیث کی رو سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ انسان کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی صفائی، پاکیزگی اور نفاست کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسلام کی تعلیم ہے ’صفائی ایمان کا حصہ ہے۔‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر 223 )لیکن خاص طور سے ہمارے مسلم سماج میں صفائی کا جو حال ہے وہ ہر شخص پر ظاہرو باہر ہے۔ ہم عام طور پر اس گندگی کے لئے حکام اور اعیان حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی نہ کسی حد تک اعیان حکومت مسلم مسائل سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صفائی بحال کرنے کے لئے ہماری جانب سے جس قدر کوشش ہونی چاہئے اتنی ہم کرتے نہیں۔ نتیجتا نہ صرف یہ کہ ہمارے سماج میں طرح طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور ہماری اور ہمارے بچوں کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے، بلکہ جب ہمارے علاقہ میں کوئی غیر مسلم آتا ہے تو وہ صرف ہمارے تعلق سے ہی نہیں بلکہ اس پاک مذہب کے تعلق سے بھی غلط اثر لے کر جاتا ہے جس کی تعلیمات کا ایک ایک حصہ صفائی و پاکیزگی کا مظہر ہے۔ 
ایک دوسرا مقام جہاں ہم عام طور پر دوسروں کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں یہ ہے کہ ہم اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کے خرچ کرنے میں حد درجہ اسراف اور تبذیر (Extravagance)سے کام لیتے ہیں۔ ایسے موقع سے ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حلال کی کمائی ہوئی دولت کو ہم جائز مقامات پر خرچ کرتے ہیں تو اس سے بھلا کس کا کیا نقصان؟ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ اگر ہم بلاضرورت اپنی دولت کو بڑی گاڑیوں کے خریدنے پر خرچ کریں تو اس سے ٹریفک کا نظام معطل ہوتا ہے جو کہیں نہ کہیں ہمارے سماج میں زندگی گذارنے والے دوسرے افراد کے لئے پریشانیوں کا باعث ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے اسراف سے اگر ہماری معاشی صورتحال (Economic Condition)بگڑتی ہے تو اس کا اثر کسی نہ کسی حد تک پوری جماعت اور سوسائٹی کے معاشیات (Economy)پر پڑتا ہے، کیوں کہ ہم ایک ایسے سماج میں جیتے ہیں جس کے ہر فرد کا عمل پوری جماعت پر نتیجہ مرتب کرتا ہے۔ اور رہاسرمایہ (Capital ) اوروسائل (Resources ) کا سوال تو فطری قانون کے مطابق دنیا میں بسنے والے ہر انسان کا اس پر مساوی حق ہے۔ اگر کوئی انسان جائز طریقے سے ان چیزوں میں تصرف کا متولی ہو گیا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان وسائل میں اسی طرح تصرف کرے جس سے دوسرے انسان کے لئے خسارہ کا امکان پیدا نہ ہو۔اسی لئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا’کھاؤ پیو اور فضول خرچی مت کرو۔ اللہ فضول خرچی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ اعراف: 31 ) دوسری جگہ ارشاد ہے۔ فضول خرچی کرنے والے لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ (سورہ اسراء: 62 )
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہر فرد کے لئے چاہے وہ اسلام کا ماننے والا ہو یا نہ ہو خوشحالی، آرام، آسائش، راحت اور سکون کو یقینی بنایا گیا ہے اوراس کے لئے مستقل ایک شعبہ تشکیل دیا جس کو ہم آداب معاشرت کے نام سے جانتے ہیں۔ اس دین کی مکملیت اسی وقت دنیا کے سامنے آشکارا ہوگی جب اس کے تمام شعبوں کے ساتھ باب معاشرت کو بھی عملی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ 

Thursday 10 January 2013

Mumbai & Mumbai's Rain, Hifzur Rahman Qasmi




This article was published in the Rashtariya Sahara, Mumbai on 18/ 06/ 2008

Lack of Educational Resources, Hifzur Rahman Qasmi



This letter was published in the Inquilab, Delhi on 14/ 03/ 2012

Divide and Rule, Hifzur Rahman Qasmi


This Short opinion was published in the Inquilab, Delhi on 05/ 02/ 2012

Arrest of Innocent Muslim youths, Hifzur Rahman Qasmi


This Short Opinion was published in the Inquilab, Delhi on 03/ 05/ 2012

Forgetting God, Hifzur Rahman Qasmi


This letter was published in the Inquilab, Delhi on 18/ 02/ 2012

Illegal arrest of Muslim Youths, Hifzur Rahman Qasmi


This short opinion was published in the Inquilab, Delhi on 22/ 06/ 2012

Indian Judiciary, Hifzur Rahman Qasmi




This letter was published in the Inquilab, Delhi on 04/ 03/ 2012

Conspiracy against Islam, Hifzur Rahman Qasmi


This letter was published in the Rashtriya Sahara, Delhi on 17/ 05/ 2012

AMU Branch of Kishangaj, Hifzur Rahman Qasmi



This letter was published in the Rashtriya Sahara, Delhi, on 27/ 03/ 2012

The Politics of Election, Hifzur Rahman Qasmi



This letter was published in the Rashtriya Sahara, Delhi on 06/ 02/ 2012

Provisional Columns in Newspapers, Hifzur Rahman Qasmi



This letter was published in the Inquilab, Delhi, on 06/ 03/ 2012

Congress, Hifzur Rahman Qasmi



This letter was published in the Inquilab, Delhi on 29/ 03/ 2012

Secularism and Indian Civilization, Hifzur Rahman Qasmi



This letter was published in the Sahafat, Delhi on 21/ 06/ 2012

Man in Need, Hifzur Rahman Qasmi




This Letter was published in the Sahafat, Delhi on 10/04/2012

Soft Drinks or Hard Drinks, Hifzur Rahman Qasmi



This is the second part of the article, published in the Sahafat, Delhi on 31/ 03/ 2012

Soft Drinks or Hard Drinks, Hifzur Rahman Qasmi




Note: This is the first part of the article which was originally written in English by M. Burhanuddin Qasmi. Later I translated it and got it published in the Sahafat, Delhi on 30/03/2012

Monday 7 January 2013

Request to Darul Uloom authority


Letter to Editor on Rail Budget 2011



Inquilab, Delhi

IMPACT OF EXTRAVAGANCE ON THE SOCIETY, HIFZUR RAHMAN QASMI


اسراف: انفرادی عمل اور اجتماعی نقصان

  حفظ الرحمن قاسمی

فرد کا سماج سے وہی رشتہ ہوتا ہے جو موج کا دریا سے اور کڑی کا زنجیر سے ۔ سماجی زندگی فرد کی شرست میں داخل ہے ، جبکہ فرد سماج کالازمی عنصر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ فرد کی انفرادی حیثیت بھی اسی وقت نمایاں ہوتی ہے جب وہ ایک مربوط اور منظم سماج میں زندگی گذارتا ہے۔ سماج کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ 

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، اور بیرون دریا کچھ نہیں

عام خیال یہ ہے کہ انسان اپنے ماحول اور گردو پیش کا اثر قبول کرتا ہے؛ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فردکے ہرہر عمل کا معاشرہ پر کسی نہ کسی حد تک مثبت یا منفی اثر ضرور پڑتا ہے۔ چنانچہ اچھے سماج کی تشکیل اور اس کے بقاء میں ہر فرد کے ذاتی عمل کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ لہذا ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے کسی بھی عمل کی انجام دہی سے پیشتر اس سے پیدا ہونے والے منفعت اور مضرت کے دونوں پہلوؤں کا بنظر غائر جائزہ لے لے۔ کسی بھی فردکو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ معاشرہ اور معاشرہ سے اپنی وابستگی کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی ایسا کام کر گذرے جس کے اثرات کسی نہ کسی درجہ میں سماج پر مرتب ہوتے ہوں۔ اس لئے کہ سماج سے الگ ہوکر فرد کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی اور اس حقیقت سے چشم پوشی کرنا اپنی فطرت اور اس کے تقاضوں سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔ 

اس میں شک نہیں کہ انسان بشری تقاضوں کے خم و پیچ میں ہر آن الجھا رہتا ہے۔ اسے ہر لمحہ کسی نہ کسی ضرورت کا مسئلہ در پیش اور اس کی تکمیل کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ اورقدرت نے انسان کی جملہ ضروریات اور مسائل کے حل کے لئے ہمہ اقسام کے بے شماراسباب و وسائل فراہم کئے ہیں۔مگر یہ تمام خزانے ہمارے پاس امانت ہیں، ہم بقدر ضرورت ان کے استعمال کا اختیارتو رکھتے ہیں لیکن اس میں من چاہے اسراف(Extravagance) اور غیر ضروری کفایت شعاری (Frugality)کااختیار نہیں رکھتے۔ خوشگوار انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان ضرورت کے وقت میں ان وسائل کا استعمال کرے۔ اگر کوئی انسان ضرورت کے وقت میں بھی ان وسائل کا استعمال میں غیر ضروری کفایت شعاری سے کام لیتا ہے توگویا یہ ایک انتہا ہے جسے بخل کہا جاتا ہے۔ اور اس کے بر عکس دوسری انتہا کا نام اسراف ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے بلا ضرورت یا ضرورت سے زائد وسائل کا استعمال۔ زیر نظر مضمون میں اسی اسراف کے منفی پہلوؤں پر اظہار خیال مقصودہے۔ 


اسراف یا فضول خرچی ایک ایسا عمل ہے جس کے مضرت کا ہر شخص کو احساس و اعتراف اور غیر معقولیت پر ہر عقلمند انسان کو حق الیقین حاصل ہے۔ اس لئے کہ فضول خرچی کے پاداش میں نہ صرف یہ کہ انسان غضب الہی کا مستحق ہو جاتاہے ، بلکہ ایک دن ان وسائل سے محرومی بھی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بالآخر وہ افلاس وبد حالی کا شکار ہوکر معاشرہ میں اپنی ساکھ کو بچانے میں بھی ناکام ہو جاتا ہے جسے وسائل کی بہتات اور دولت کی ریل پیل کے بل پر اس نے قائم کیا تھا۔قرآن کریم افراط اور تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے لوگوں کو شاہراہ اعتدال کی یوں رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے: ’اے بنی آدام، ہر نماز کے وقت (لباس سے) اپنے تئیں آراستہ کر لیا کرو، اور کھاؤ پیو اور بے جا خرچ نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘ (الاعراف، ۷: ۳۱) 


اس کائنات کے ذرہ ذرہ کو انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے وجود بخشا گیا ہے۔ چنانچہ ہر انسان اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتے ہی اپنے گرد و پیش میں مواقف حیات اسباب (Life Support System) کا ایک وسیع اور ہمہ گیر نظام پاتا ہے۔خالق ارض و سماء نے انسان کی تخلیق سے قبل اس کی معاش کے خزانہ تمام طلبگاروں کے لئے حسب ضرورت یکساں طور زمین میں رکھ دئے ۔ تاکہ روئے زمیں پر بسنے والے تمام انسان اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے لئے اعتدال کی روش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان اسباب کا استعمال کریں اور بے جا اسراف میں اس امانت کو برباد کر کے دوسرے کی حق تلفی کا باعث نہ بنیں۔جہاں تک انسانی ضروریات کا تعلق ہے اس کے لئے یہ تمام اساب و وسائل کافی ہیں۔ البتہ انسان کی خواہشات کی تکمیل اس دنیا میں ممکن نہیں۔ لیکن سماج میں زندگی گذارنے والے کچھ لوگ جب اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی خواہشات کی تکمیل میں دوسروں کی پرواہ کئے بغیر وسائل کاغلط استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، تو اس کے منفی اثرات صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اس سے متعدی ہوکر پورے سماج کوایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔نتیجتاً سماج میں وسائل کی قلت کی وجہ سے بے شمار پریشانیاں اور مشکلات رونما ہوتی ہیں، اورفرد کے گناہ کا کفارہ جماعت کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں بے شمار ایسی مثالیں مل جائیں گی جن سے پتہ چلتا ہے کہ پورے سماج پر ایک فرد کے مسرفانہ اور غیر معتدل انداز بود و باش(Extravagant Mode of Life) کی وجہ سے کس طرح کے بحرانی دورے (Crisis) پڑ رہے ہیں۔ ذیل میں کچھ موٹی موٹی پریشانیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو فردکے اسراف کے نتیجہ میں پورے سماج کو اپنی چپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ 

مثلا نقل و حمل (Transportation)کے مسئلہ ہی کو لیجیے۔ آج کی دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کی محیر العقول دریافتوں کی وجہ سے پوری دنیا ایک گاؤں (Global Village) میں سمٹ کررہ گئی ہے اورنقل و حمل کے ایسے وسائل فراہم ہو چکے ہیں جن سے دوریاں نزدیکیوں میں بدل گئی ہیں۔ پہلے آدمی کو کسی جگہ کا سفرکرنے کے لئے یا کسی مقام تک پیغام رسانی کے لئے مہینے درکار ہوتے تھے، آج وہی مسافتیں گھنٹوں، بلکہ منٹوں میں طے ہو جاتی ہیں۔ لیکن اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بسا اوقات چند فرلانگ کی دوری بھی گھنٹوں میں طے ہو پاتی ہے اور منزل تک رسائی کے لئے وقت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ سڑکوں پر مختلف چھوٹی بڑی گاڑیوں کا تانتا کچھ ایسے لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں جہاں عام معمول زندگی متاثر ہوتا ہے وہیں جان بلب مریضوں کوفوری طور پر طبی امدادبھی مہیا نہیں ہو پاتی ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے اس بھیڑ بھاڑ اورو شور شرابہ کی دنیا کو خیرباد کہ دیتے ہیں۔دوسری طرف بڑے شہروں کی تنگ گلیاں ہوں، رہائشی علاقے ہوں یا بازار، آپ کسی بھی جگہ اپنی سائیکل سے جائیں اور کسی ضرورت سے تھوڑی دیر کے لئے سائیکل کھڑی کرناچاہیں، تو جگہ کی تلاش میں منٹوں سوچنا پڑتا ہے۔ کہیں بھی آسانی کے ساتھ آپ کو پارکنگ کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ اور اگر کوئی جگہ مل بھی جائے تو کام سے فراغت کے بعد وہاں سے اپنی سائیکل کو نکال لانا دشوار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اتنی دیر میں اس کے ارد گردبہت سی سائیکلیں، گاڑیاں اور ٹھیلے وغیرہ لگ چکے ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اس طرح کی پریشانیوں کی اصل وجہ کیا ہے؟ بڑے لوگ جو عام طور پر اپنی پر تعیش (Luxurious) گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں وہ اس پریشانی کا اصل سبب عام طور پر ان لوگوں کو قرار دیتے ہیں جو رکشہ چلاکر یا ٹھیلا کھینچ کر اپنی اور اپنے کنبہ کی زندگی کی گاڑی کو کسی طرح کھینچ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں حکومت اور انتظامیہ کو ملزم ٹھراتے ہیں۔ لیکن ان تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ وہ لمبی چوڑی گاڑیاں ہیں جن کی برق رفتاری اور فراٹوں سے اہل ثروت اپنے شوق کو تسکین دیتے ہیں۔ جن کے پاس پیسے ہیں اگر ان کی ضرورت دو پہیے سے پوری ہو جائے تب بھی وہ چار پہیے کو اپنا لازمہ حیات سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ ان کی خواہش اور ان کی تونگری کا آئینہ دار ہے۔ بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کے یہاں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے گاڑیوں کی تعدادکا تناسب بلا ضرورت افراد کی تعداد کے مساوی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اس اسراف کو کبھی تو ضرورت کا جامہ پہنا کر جائز ٹھراتے ہیں اور کبھی یہ کہہ کرٹال دیتے ہیں کہ’ زندگی ہے ہی کتنے دن کی؟اور پھر اس مال کو کوئی قبر میں لے کر تھوڑے ہی جانا ہے‘۔ لیکن وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہ گاڑیاں آخر کس سڑک پر دوڑینگی اور پارکنگ کے لئے خالی جگہ کہاں سے مہیا کی جائے گی؟ وہ اپنی خواہنشات کی تکمیل میں اپنی دولت کو بے تحاشہ لٹاتے ہیں اور ان کے قہقہوں میں نہ جانے کتنی آہیں اور کراہیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اگر انسان اس سلسلے میں صرف اپنی ضرورت کی تکمیل پر توجہ دے اور اپنی ذاتی گاڑیوں کا استعمال بقدر ضرورت ہی کرنے پر اکتفا کرے، تو ٹریفک کے مسئلہ کا کسی حد تک حل نکل سکتا ہے۔ 

دوسرا مسئلہ توانائی کا ہے۔زندگی کے سفر میں دیگر بہت سی چیزوں کے علاوہ انسان روشنی کا بھی محتاج ہے۔ اسی لئے وہ رات کی تاریکیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے روشنی کے نت نئے طریقوں کو بروئے کار لاتا ہے۔قدیم زمانہ میں لوگوں نے چقماق سے آگ نکال کر اس کی ابتدا کی بعد ازاں اس سمت میں مرحلہ وار کئی ایک اقدامات عمل میں آئے۔ اور آخر کار اس نے ترقی کرتے کرتے برقی توانائی سے روشنی کا سامان پیدا کیا۔اور اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ برقی توانائی(Electronic Power) انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں لوگ اس قدر لا پرواہی اور اسراف سے کام لیتے ہیں کہ کہیں تو قمقموں کی جگمگاہت سے چراغاں ہو رہا ہے، اور کہیں غریبوں کے دیئے تیل کی بوند سے بھی خالی ہیں۔سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں بجلی کا جس قدر بیجا استعمال ہوتا ہے اس سے ہروہ شخص واقف ہے جو کسی حد تک ان جگہوں پر آنا جانا کرتا ہے۔ان دفاتر کے ملازمین کو بل کی بالکل پروا نہیں ہوتی، اس لئے کہ بل انھیں خود ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اہل ثروت کے گھروں کی بھی حالت اس سے دگر گوں نہیں ہے۔البتہ وہ اتنا احتیاط ضرور کرلیتے ہیں کہ کہیں جاتے وقت سارے بلب بجھا دیتے ہیں اور پنکھے بند کر دیتے ہیں۔ لیکن اسراف کی اس حد سے وہ بھی نہیں بچ پاتے کہ جس جگہ ایک بلب سے کام چل سکتا ہے وہاں اسراف کرتے ہوئے کئی کئی بلب ہوتے ہیں۔ اس سے انھیں تھوڑی دیر کی چمک دمک سے لطف اندوز ہونے کا موقع تو مل جاتاہے؛ لیکن اس کا منفی اثر سماج پر یہ ہوتا ہے کہ توانائی کی قلت کی وجہ سے ملک کے بہت سے حصے روشنی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی راتیں تاریکیوں میں گذرتی ہے، اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اگر یہ فضول خرچی کرنے والے اہل ثروت تھوڑی دیر کے لئے اس نکتے پر غور کر لیں تو نہ صرف یہ کہ ان کامحنت سے کمایا ہوا اثاثہ ضائع ہونے سے بچ جائے گا، بلکہ بہت سے لوگ تاریکیوں میں رات گذارنے کی پریشانی سے محفوظ ہو جائیں گے۔ 

اسراف کا ایک بڑا سماجی نقصان شادیوں اور دیگر تقریبات کے موقعوں سے پڑوسیوں کی ایذا رسانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں لوگ ناچ گانوں اور دیگر لغویات پر جو خرچ کر ڈالتے ہیں اگر وہ پیسے قوم کے غریب بچوں پر خرچ کئے جائیں، تو بہت سے نونہالان قوم کو وہ میدان مل سکتا ہے جس میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے خوابوں کی دنیا بسا سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو فطری قابلیت (Talent) کے حامل ہونے کے باوجود محض وسائل کی قلت کی وجہ سے کامیابی کے اس مقام بلند تک نہیں پہونچ پاتے جس کے وہ صحیح معنوں میں مستحق تھے۔ اس اسراف کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ رات کے حصوں میں جب ناچ گانے کا ماحول گرم ہوتا ہے، تودن بھی کے تھکے ہارے مزدوری کرنے والے کتنے ہی لوگوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، کتنے طلباء جو مطالعہ کے لئے یکسوئی کے خواہاں ہوتے ہیں، ان کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے، کتنے مریض جن کو سکون کی ضرورت ہوتی ہے، ان کا سکون اس شور شرابہ میں غارت ہوکر رہ جاتا ہے۔ لیکن ان چیزوں سے ان دولتمندوں کو کیاسروکار؟ انھیں تو انھیں تو اپنے ارمان نکالنے ہیں، خواہ معاشرہ کو اس کی کیسی ہی قیمت ادا کرنی پڑے اور افراد کی اس ہوس پرستی کا کیسا ہی اثر سماج پر مرتب ہو۔چنانچہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ قوم کا بے پناہ پیسہ برباد ہوتا ہے، بلکہ مستحقین کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔ 

معاشرے پر پڑنے والے فضول خرچی کے یہ کچھ منفی اثرات تھے جو نمونہ کے طور پر پیش کئے گئے، ورنہ روز مرہ کی زندگی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جب اسراف کیا جاتا تو اس میں اجتماعی اور سماجی نقصان کا کچھ نہ کچھ پہلو ضرورشامل ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ فرد کے اسراف کا راست اثر سماج پر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن پاک نے ارشاد فرمایا: ’اور رشتہ داروں کو (بھی) ان کا حق ادا کرو، اور مسکین و مسافر کو (بھی ان کا حق دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ کرنے والے لوگ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکر گذار ہے۔ (بنی اسرائیل، ۱۷: ۲۶،۲۷)اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اسراف کے نتیجے میں حق تلفیاں ہوتی ہیں اور معاشرہ ہر اعتبار سے عدم توازن کا شکار ہوتا ہے جس سے بغض و حسد اور باہمی رقابت جیسے منفی احساسات پروان چڑھتے ہیں اور بالآخر آپس میں بھائی بھائی میں دشمنی کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں جو شیطان کا عین منشا ہے۔ 
نوٹ:۔ یہ مضمون روزنامہ صحافت، دہلی کے شمارہ ۷/ ۱/ ۲۰۱۳ میں شائع ہوا۔