Monday 25 March 2013

آداب معاشرت: اسلام کا ایک فراموش کردہ باب



از: حفظ الرحمن قاسمی

مرکز المعارف، دہلی

اسلام کے پانچ شعبے ہیں: عقائد(Belief)، عبادات(Worship)، معاملات(Dealings)، اصلاح باطن(Spirituality or Inner Reformation) اور آداب معاشرت(Civic Sense)۔ اسلام کی تکمیل اور اس کے ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی اسی وقت مسلم الثبوت ہو پائے گا جب کہ ان تمام شعبوں کوعین دین سمجھ کر انھیں عملی زندگی کا حصہ بنالیا جائے۔ لیکن افسوس کی با ت یہ ہے کہ مسلمانوں میں عوام الناس نے تو صرف عقائد و عبادات کے باب کو ہی مکمل دین سمجھا ، جب کہ علماء ظاہر نے اپنے خیال اور دائرہ عمل کو مزید وسعت دیتے ہوئے معاملات کے حصہ کو بھی د امن مذہب میں پناہ دی۔ اس کے بعد ایک طبقہ ہے اہل تصوف کا جنھوں نے مزید کرم فرمایا اور اصلاح باطن کو بھی دین کا حصہ خیال کیا۔ لیکن پانچواں حصہ آداب معاشرت وہ ہے جس کو نظریاتی (Theoretically)اعتبار سے گرچہ کچھ لوگ ضروری اور دین کا حصہ شمار کرتے ہوں؛ لیکن عملی طور پر (Practically) تقریبا تمام مسلمانوں نے اسے نظر انداز کر دیا ہے ، حالانکہ بعض اعتبار سے یہ عبادات سے بھی اہم ہو جاتا ہے۔ 
آداب معاشرت کا مطلب وہ رہنما اصول اور طریقہائے کارہیں جنھیں معاشرہ میں زندگی گذارتے وقت ہر فرد کو مد نظررکھنا چاہیے تاکہ وہ معاشرہ صالح ،صحتمند اور خوشگوار ہو سکے۔ جب بھی کسی معاشرہ میں ان اصول کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہاں بد عنوانی ، اضطراب، آپسی تنازع اور انفرادی اور اجتماعی کش مکش جیسے تباہ کن حالات جنم لیتے ہیں اور اس سماج میں جینے والے ہر فرد کو اپنے منفی اثرات کے حصار میں لیتے ہوئے زندگی کو موت سے زیادہ خطرناک بنا دیتے ہیں۔دوسری طرف اگر آداب معاشرت اور سماج کو خوشگوار بنانے والے ان سنہرے اصول کو مد نظر رکھ کر زندگی گذاری جائے تو اس سماج میں کسی کو کسی سے کوئی گلہ نہ ہوگا، چنانچہ وہاں آپسی تنازع اور جھگڑے لڑائی کے امکانات نہ کے برابر ہونگے۔وہاں محبت و الفت ہوگی،ہمدردی و غمخواری ہوگی، اخوت و برادرخوانگی ہوگی، مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوگی؛ خلاصہ کلام یہ کہ وہ سماج جنت نظیر ہو جائے گا۔ 
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را با کسے کارے نہ باشد 
کسی بھی سماج کو خوشگوار بنانے کے لئے اس میں بسنے والے انسانوں کا آداب معاشرت کے تئیں بیدار ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے اسلام میں اس کو ایک مستقل شعبہ قرار دیاگیا اور اس کے ہرہر پہلو کو نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ۔ اصولی طور پر حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا ’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘(سچا پکا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔) (صحیح بخاری حدیث نمبر6484 ) یہ حدیث اسلامی آداب معاشرت کی بنیاد ہے ۔ گو کہ اس میں کمال اسلام کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کے قولی اور فعلی شرور سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، لیکن دیگر احادیث ایسی بھی ہیں جن میں مطلقا پڑوسیوں کی ایذا رسانی سے منع کیا گیا ہے۔ جیسے ایک مرتبہ آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا’ خدا کی قسم وہ مومن کامل نہیں ہو سکتا۔‘ تو صحابہ نے دریافت کیا ’کون مومن نہیں ہو سکتا،اے اللہ کے رسول؟‘ تو نبی کریم ﷺ نے جواب دیا’ وہ شخص جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘(صحیح بخاری حدیث نمبر 6016)اس حدیث میں مطلقا پڑوسی کو محفوظ رہنے کی بات کی گئی ہے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی شرط نہیں ۔ اسی بنا پر محدثین اول الذکر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں مسلمون کا لفظ محض مسلمانوں کی اشرفیت کی بنا پر استعمال کیا گیا ہے ، ورنہ کسی غیر مسلم کو بھی بلا وجہ ایذا دینا شرعا جائز نہیں۔ چنانچہ ایمان اور اسلام کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ بندہ کے کسی بھی عمل سے اس کے کسی ساتھ کو کوئی تکلیف نہ پہونچے۔تو اسلامی آداب معاشرت کا بنیادی اصول یہ قرار پاتا ہے کہ انسان کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی کوئی ایسا عمل انجام نہ دینا چاہیے جو دوسروں کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی کا باعث بن جائے۔ 
آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے پورے ذخیرہ میں آداب معاشرت کے تعلق سے جو بھی تعلیم دی گئی ہے وہ اسی اصول کی فرع اور اجمال کی تفصیل ہے۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ 
انسان فطری طور پر سماجی زندگی گذارنے کا خوگر ہے۔ سماج میں زندگی گذارتے وقت اسے ایک دوسرے سے مختلف قسم کی ضروریات پیش آتی ہے جن کی تکمیل لئے وہ دوسروں سے ملنے پر مجبور ہوتا ہے؛ لیکن کسی سے ملتے وقت بھی انسان کو اس کی راحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کوئی ایسا طریقہ ہر گز اختیا نہ کیا جائے جس سے سامنے والے فرد کو ایذا پہونچے۔ اس لئے قرآن کریم نے اس کا طریقہ یہ بتا یا کہ اگر کسی کے یہاں جاؤ تو سیدھے اس کے گھر میں بے دھڑک داخل مت ہو جاؤ بلکہ باہر سے سلام کرو پھر داخلے کی اجازت طلب کرو۔ اگر اجازت مل جائے تو جاؤ ،ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔(سورہ النور: 27-28 ) اگر اہل خانہ کسی وجہ سے اجازت نہ دیں تو اس سے بد دل نہ ہونا چایئے۔ 
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں زندگی گذارتے وقت ایک انسان کو اپنے دوسرے ساتھیوں کی راحت کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ یہ تعلیم اس لئے دی گئی ہے کہ ہم بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہوجائیں اورمبادااس کی وجہ سے انھیں کوئی تکلیف لاحق ہوجائے، اس لئے کہ اس سے اس کی ذاتیات (Privacy ) میں وقوع خلل کا اندیشہ ہے۔ لیکن اس تعلیم کے بر خلاف ہمارا عمل یہ ہے کہ اولا تو ہمیں اجازت لینا گوارہ نہیں، اگر لے بھی لی توہم اہل خانہ کی طرف سے مثبت جواب کے اس قدر شدیدخواہاں ہوتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو پھر ہم ان پر ہمیشہ کے لئے بد اخلاقی و ملعونیت کالیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ 
مذہب اسلام کی شان یہ ہے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی باتوں کے تعلق سے بھی اطمینان بخش ہدایات ملتی ہیں۔چنانچہ ایک حدیث میں ملاقات کے تعلق سے ہمیں ایسی تعلیم ملت ہے جس کی نظیر دوسری جگہوں پر شاید مشکل سے مل سکتی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نبی کریم ﷺ کے در دولت پر حاضر ہوئے اور دستک دی۔ اندر آواز آئی’ کون؟‘ حضرت جابر نے جواب دیا’ میں ہوں‘ آپ ﷺ نے نا گواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’میں ہوں! میں ہوں!‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر 6250 )مقصد یہ تھا کی انسان جب بھی کہیں جائے تو اپنا تعارف مہمل الفاظ میں نہ کرائے۔ اس سے اس کی شخصیت سامنے والے پر بالکل واضح نہیں ہوپاتی اور اس کے نتیجہ میں سامنے والے کے ساتھ ساتھ خود اس شخص کو بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں اسلام نے اپنے ماننے والوں میں راہنمائی کی ہے۔ 
سماج میں زندگی گذارتے ہوئے انسان کو دوسروں کے لئے آسانی یا پریشانی پیدا کرنے کے سلسلے میں کس قدر محتاط رہنا چاہیے اس کا اندازہ اسلام کی اس تعلیم سے لگتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صریح حدیث میں لوگوں کو خام پیاز اور لہسن کھاکر مسجد میں جانے سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم حدیث نمبر564) اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی بدبو سے فرشتوں اور دوسرے انسانوں کو تکلیف پہونچتی ہے۔ اس حدیث کی رو سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ انسان کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی صفائی، پاکیزگی اور نفاست کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسلام کی تعلیم ہے ’صفائی ایمان کا حصہ ہے۔‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر 223 )لیکن خاص طور سے ہمارے مسلم سماج میں صفائی کا جو حال ہے وہ ہر شخص پر ظاہرو باہر ہے۔ ہم عام طور پر اس گندگی کے لئے حکام اور اعیان حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی نہ کسی حد تک اعیان حکومت مسلم مسائل سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صفائی بحال کرنے کے لئے ہماری جانب سے جس قدر کوشش ہونی چاہئے اتنی ہم کرتے نہیں۔ نتیجتا نہ صرف یہ کہ ہمارے سماج میں طرح طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور ہماری اور ہمارے بچوں کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے، بلکہ جب ہمارے علاقہ میں کوئی غیر مسلم آتا ہے تو وہ صرف ہمارے تعلق سے ہی نہیں بلکہ اس پاک مذہب کے تعلق سے بھی غلط اثر لے کر جاتا ہے جس کی تعلیمات کا ایک ایک حصہ صفائی و پاکیزگی کا مظہر ہے۔ 
ایک دوسرا مقام جہاں ہم عام طور پر دوسروں کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں یہ ہے کہ ہم اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کے خرچ کرنے میں حد درجہ اسراف اور تبذیر (Extravagance)سے کام لیتے ہیں۔ ایسے موقع سے ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حلال کی کمائی ہوئی دولت کو ہم جائز مقامات پر خرچ کرتے ہیں تو اس سے بھلا کس کا کیا نقصان؟ لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ اگر ہم بلاضرورت اپنی دولت کو بڑی گاڑیوں کے خریدنے پر خرچ کریں تو اس سے ٹریفک کا نظام معطل ہوتا ہے جو کہیں نہ کہیں ہمارے سماج میں زندگی گذارنے والے دوسرے افراد کے لئے پریشانیوں کا باعث ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے اسراف سے اگر ہماری معاشی صورتحال (Economic Condition)بگڑتی ہے تو اس کا اثر کسی نہ کسی حد تک پوری جماعت اور سوسائٹی کے معاشیات (Economy)پر پڑتا ہے، کیوں کہ ہم ایک ایسے سماج میں جیتے ہیں جس کے ہر فرد کا عمل پوری جماعت پر نتیجہ مرتب کرتا ہے۔ اور رہاسرمایہ (Capital ) اوروسائل (Resources ) کا سوال تو فطری قانون کے مطابق دنیا میں بسنے والے ہر انسان کا اس پر مساوی حق ہے۔ اگر کوئی انسان جائز طریقے سے ان چیزوں میں تصرف کا متولی ہو گیا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان وسائل میں اسی طرح تصرف کرے جس سے دوسرے انسان کے لئے خسارہ کا امکان پیدا نہ ہو۔اسی لئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا’کھاؤ پیو اور فضول خرچی مت کرو۔ اللہ فضول خرچی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ اعراف: 31 ) دوسری جگہ ارشاد ہے۔ فضول خرچی کرنے والے لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ (سورہ اسراء: 62 )
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہر فرد کے لئے چاہے وہ اسلام کا ماننے والا ہو یا نہ ہو خوشحالی، آرام، آسائش، راحت اور سکون کو یقینی بنایا گیا ہے اوراس کے لئے مستقل ایک شعبہ تشکیل دیا جس کو ہم آداب معاشرت کے نام سے جانتے ہیں۔ اس دین کی مکملیت اسی وقت دنیا کے سامنے آشکارا ہوگی جب اس کے تمام شعبوں کے ساتھ باب معاشرت کو بھی عملی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔