Friday 4 October 2013

ذی الحجہ

عشرہ ذی الحجہ: ایک عظیم نعمت خداوندی
حفط الرحمن قاسمی
مرکز المعارف، دہلی

تمہید: اس کرہ ارض اور اس پر پھیلی ہوئی تمام چیزوں کا تنہا خالق و مالک اللہ ہےاور وہ اپنی مخلوقات میں ہر نوع کے تصرف کا حق رکھتا ہے، چنانچہ اس نے بعض انسانوں کو دوسروں سے اعلی ٹھہرا یا، بعض مقامات کو دوسری جگہوں سے افضل قرار دیا اور بعض زمانوں اور اوقات کو دوسرے زمانوں اور اوقات پر فوقیت و برتری عطا فرمائی۔ ان مخصوص اوقات و مقامات میں کیا گیا ادنی سا نیک عمل بسا اوقات عام زمان و مکان میں کئے گئے بڑے اعمال سے بھی ثواب میں سبقت لے جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسلامی تقویم کے آخری ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔
فضیلت: ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کو خدا نے سال کے دیگر اوقات کے مقابلہ میں امتیازی شان کا حامل قرار دیا۔ متعدد آیات و احادیثہ ان دنوں کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سے بھی ان ایام کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔چنانچہ ان دنوں میں کئے گئے اعمال کا ثواب بھی عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجا تا ہے۔ ذیل میں قرآن و احادیث سے وہ دلائل  پیش کئے جاتے ہیں جن سے ان ایام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
اول: قرآن کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے "والفجر ولیال عشر" (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی)یہاں دس راتوں سے کون سی راتیں مراد ہیں؟ امام بغوی نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت مذکور میں دس راتوں سے مراد  ذی الحجہ کی ابتدائی راتیں ہیں۔ یہی رائے دیگر مفسرین مثلا  قتادہ، مجاہد، ضحاک،سدی اور کلبی رحمہم اللہ کی ہے۔
"تفسیر ابن کثیر" میں "لیال عشر" کی مراد کے سلسلے میں  مفسر نے مختلف ائمہ تفسیر کی رائے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے، اور تائید کے طور پرمسند احمد سےایک روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن العشر عشر الأضحى.  ( عشر سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ ہے۔)
ان تمام ائمہ تفسیر کی رائے جان لینے کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آیت مذکور میں "لیال عشر" سے مراد ذی الحجہ کے عشرہ کی راتیں ہیں۔ اب غور کیا جائے کہ اللہ رب العزت ان آیات میں فجر اور دس راتوں کی قسم کھا رہا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ لوگ اسی چیز کی قسم کھاتے ہیں جو ان کے نزدیک مہتم بالشان ہوں۔ چنانچہ یہ راتیں کس قدر اہمیت کی حامل ہونگی کہ اللہ  خود ان کی قسم کھا رہا ہے۔ اس لئے یہ خیال اپنی جگہ بجا اور مستند ہے کہ ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں دیگر راتوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔
دوم: قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے "الحج أشھر معلومات" (حج کے مہینے معلوم و متعین ہیں۔) حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ" ذو الحجہ کے دس دنوں کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ معلوم مہینوں کا آخری حصہ ہیں اور وہ مہینے حج کے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا  "الحج أشھر معلومات" اور وہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔"
صاحب تفسیر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ "أشهر معلومات"سے امام ابوحنیفہ، امام شافعی کے اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کے مطابق شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن مرادہیں۔ اور صاحب تفسیر کی بھی یہی رائے ہے۔ مزید براں یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ "أشھر معلومات" سے مراد شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کا عشرہ ہے۔ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ حج کے مہینے شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کا عشرہ ہیں۔) حج کرنااس قدر عظیم المرتبت عمل ہے کہ یہ  ہر ذی شعور مسلمان کی پہلی مذہبی و روحانی تمنا ہوتی ہے۔چنانچہ وہ ایام  جن کو قرآن نے"حج کے مہینے"  قرار دیا ہے، کس قدر با برکت و با عظمت ہونگے۔ اور یہ بات مندرجہ بالاتشریحات سے ثابت ہو چکی ہے کہ حج کے مہینے شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اس لئے عشرہ ذی الحجہ کے افضل و بابرکت ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا، کیونکہ اسی عشرہ کے ساتھ حج کے مہینے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔
سوم:  اللہ تعالی کا  فرمان ہے "ویذکر اسم اللہ فی أیام معلومات۔" (اور معلوم دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں۔) اس آیت میں اللہ پاک نے صراحت کے ساتھ متعین ایام میں اپنے ناموں کا ذکر کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس سے ان ایام کی فضیلت واضح طور پر متحقق ہوجاتی ہے۔ ان ایام سے بھی وہی عشرہ ذی الحجہ مراد ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ مزید یہ کہ   دیگر مفسرین مثلا حسن، عطاء، عکرمہ، مجاہد، قتادہ اور شافعی رحمہم اللہ سے بھی آیت مذکور کی یہی تفسیر منقول ہے۔ خداے تعالی کے انسانوں پر بے شمار احسانات ہیں، اس لئے ذکر الہی توبندوں پر ہر روزہمہ وقت  لازم ہے، لیکن مولائے کریم کا اپنی یاد کے لئے کچھ دنوں کا خصوصی طور پر ذکر فرمانا یقینا ان دنوں کی رفعت و عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
ان تینوں آیات  میں غور کرنے کے بعد ذی الحجہ کے اول عشرہ کی فضیلت و برکت ثابت ہوجاتی ہے اور عمل کرنے والوں کے لئے کافی ہے، تاہم ہمارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث بھی ہیں جو کھلے لفظوں میں ان ایام کی عظمت و رفعت کو بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ما من أیام العمل الصالح فیھن أحب الی اللہ من ھذہ الأیام العشر۔ فقالو: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا الجھادفی سبیل اللہ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ولا الجھاد فی سبیل اللہ إلا رجل خرج بنفسہ و مالہ ولم یرجع من ذلک بشی۔  (ان دس دنوں سے زیادہ بہتر کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے، (یعنی سب کچھ اسی راہ میں قربان کردے)۔
حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: "جب ان دس دنوں میں کیا ہوا نیک عمل بارگاہ الہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے، تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی دوسرے دنوں کی بلند درجہ کی نیکی سے افضل ہوگی۔ اسی لئے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ کیا سال کے بقیہ دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی دربار خدا وندی میں ان دنوں کے عمل سے زیادہ عظمت والا اور عزیز نہیں؟ تو آپ نے جواب دیا "نہیں۔"
ایک دوسری حدیث میں جس کو احمد اور دارمی نے نقل کیا ہے، نبی  کریم نے فرمایا: ما من عمل أزکی عند اللہ عز و جل ولا أعظم أجرا من خیر یعملہ في عشر الأضحی۔ قیل: ولا الجھاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجھاد في سبیل اللہ عز و جل إلا رجل خرج بنفسہ و مالہ فلم یرجع من ذالک بشی۔ (کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو اللہ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے نیک عمل سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب والا ہو۔ کہا گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں البتہ اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈال دیا اور کچھ واپس نہ لا سکا۔ )
اسباب: اللہ تعالی ہر چیز کا تنہا خالق و مالک ہے۔ وہ کبھی ذروں کو آفتاب و ماہتاب بنا دیتا ہے، اور کبھی کبھی اوج ثریا جیسی رفیع الشان قدر و منزلت کی حامل شے کو قعر مذلت  میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ جب چاہے کسی بھی چیز کو دوسری ہم جنس اشیاء پر فوقیت و برتری عطا کر سکتا ہے، چنانچہ اگر عشرہ ذی الحجہ کو سال کے دیگر ایام پر فضیلت بخشی گئی تو کوئی تعجب کا مقام نہیں۔ لیکن اس دنیا کا نظام اسباب کے ماتحت ہے، اس لئے انسان ہر چیز کی علت تلاش کرتا ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے سبب کے سلسلے میں بھی علمانے کچھ نکتے بیان کئے ہیں۔  اس بارے میں حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ: عشرہ ذی الجحہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات جو کہ نماز، روزہ، صدقہ اور حج ہیں، وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتی۔"
اس عشرہ کی فضیلت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسی میں یوم عرفہ ہے جس میں اللہ تعالی نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کا اتمام کیا۔ اور ظاہر ہے کہ جس دن کسی بھی شخص کو کوئی بڑی نعمت حاصل ہوتی ہے وہ دن اس کے لئے دائمی طور پر یادگار بن جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سےکہا:تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہ، وہ اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے یوم نزول کو عید مناتے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت؟   اس نے جواب دیا: الیوم أکملت لکم ...۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا: قد عرفنا ذالک الیوم والمکان الذی نزلت فیہ علی النبی صلى الله عليه وسلم و ھو قائم بعرفۃ یوم جمعۃ۔  (ہمیں وہ دن اور جگہ معلوم ہے جہاں یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں تھے اور جمعہ کا دن تھا۔ )
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کی ایک علت یہ بھی ہے کہ اس کا آخری دن "یوم النحر" ہے ، جس کے بارے میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفضل الأیام عند اللہ یوم النحر و یوم القر۔ (اللہ کے نزدیک سب سے بہترین دن یوم نحر اور یوم قر ہے۔) یوم النحر سے مراد قربانی کا دن ہے اور یوم القر کے معنی ہیں 'ٹھہرنے کا دن' اور اس سے مراد گیارہویں  ذی الحجہ ہے، کیونکہ حجاج اس دن منی میں ٹھہرتے ہیں۔ اس حدیث میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر کی فضیلت بیان فرمائی ہے، اور یہ یوم نحر ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کا ہی ایک حصہ ہے، لہذا یوم نحر کی وجہ سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔
خلاصہ: مذکورہ  آیات و احادیث سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، اولیاء عظام اور علماء مخلصین ان ایام میں پورے اہتمام کے ساتھ خدائے پاک کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے نزدیک زندگی کا مطمح نظر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنا تھا، چنانچہ وہ ہر ان مواقع اور مقامات کے متلاشی رہتے تھے جہاں اعمال کا ثواب معمول سے زیادہ ملتا ہے، تاکہ وہ ان با برکت اوقات و مقامات میں اللہ کی مخصوص عبادت کے ذریعہ اپنے لئے توشہ آخرت تیار کر سکیں۔ لیکن ان کے برخلاف عامۃ المسلمین میں اس طرف سے بے انتہا کوتاہی کا ظہور ہوتا ہے۔ اس لئے عام مسلمین کو بھی چاہیے کہ اللہ نے ہمیں جو قیمتی موقع عنایت فرمایا ہے، اس سے تا حد استطاعت استفادہ کریں اور درگاہ خدا وندی میں حصول تقرب کے لئے سعی کریں۔  ذیل میں وہ اعمال دیے جاتے ہیں جن کو ان دنوں میں کرنے کی فضیلت آئی ہے۔
کثرت ذکر: اس عشرہ میں تکبیر و تحمید اور تہلیل کا بکثرت ورد کرنا مسنون ہے۔ حدیث پاک کا ارشاد ہے: ما من أیام أعظم عند اللہ ولا أحب إلیہ العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروفیھن من التھلیل و التکبیر و التحمید۔ ( اللہ کے نزدیک ان دس دنوں میں عمل صالح کرنا جس قدر محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں محبوب نہیں ہے، اس لئے تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو۔)
تکبیرات کے صیغے اور الفاظ  ہیں: (۱) أللہ أکبر أللہ أکبر کبیراً۔ (۲) أللہ أکبر اللہ أکبر لاإلہ إلا اللہ واللہ أکبر اللہ کبر وللّٰلہ الحمد۔تکبیر دو طرح سے کہنا مشروع ہے۔ (۱) تکبیر مطلق (۲) تکبیر مقید۔ تکبیر مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں، گھروں اور ہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے تکبیر کہتا رہے۔ اس کا قت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ تکبیر مقید یہ  ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیا جا ئے اور ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیر کہتا رہے۔مرد بآواز بلند تکبیر کہیں گے اور عورتیں آہستہ آہستہ تکبیریں کہیں گی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم تکبیر پکارتے ہوئے بازار میں نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ تکبیر سن کر لوگوں کو تکبیر یاد آجائے اور وہ بھی کہنا شروع کر دیں۔ ہاں ایک بات مد نظر رہے کہ بیک آواز اجتماعی تکبیر نہ پکارا جائے کیوں کہ ایسا کرنا مشروع اور جائز نہیں ہے، بلکہ ہر آدمی انفرادی تکبیر پکارے۔
آج تکبیر کہنے کی سنت ہمارے درمیان سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بہت کم لوگوں کو آپ تکبیر کہتے ہوئے سنیں گے۔ اس لئے سنت کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں کثرت سے تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس مردہ سنت کو زندہ کیا تو یقین جانئے اس میں ہمارے لئے عظیم ثواب ہے۔ فرمان نبوی ہے: "جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی، تو اس کے لئے ان لوگوں کی مانند ثواب ہے جنھوں نے اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔" اس لئے ہمیں ذی الحجہ کے ان ابتدائی دنوں میں کثرت سے اللہ رب العزت کی بڑائی، بزرگی اور اس کی تحمید و تقدیس بیان کرنی چاہئے۔
روزہ رکھنا: ان دس ایام میں کوئی بھی نیک عمل معمول سے زیادہ ثواب رکھتا ہے، اور روزہ تو ایک عظیم الشان عمل ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ "روزہ کا بدلہ میں خود ہوں۔" اس لئے ان ایام میں روزہ رکھنا عظیم سعادت اور ثواب کا ذریعہ ہے۔ مزید براں یہ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزہ رکھنا ثابت ہے۔ازواج مطہرات سے مروی ہے: کان رسول اللہ یصوم تسع ذی الحجہ و یوم عاشوراء و ثلاثۃ أیام من کل شھر۔  (نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو دن، عاشورا کے دن اور ہر مہینے کے تین دن روزہ رکھتے تھے۔) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: أربعٌ لم تکن یدعہن النبي - صلی اللہ علیہ وسلم- صیام عاشوراء، والعشر، وثلاثة أیام من کل شہر، ورکعتان قبل الفجر. ( چار عمل ایسے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہ کیا کرتے تھے۔ عاشورا کا روزہ، ایک سے نو ذی الحجہ تک کا روزہ، ہرمہینہ کے تین دن کا روزہ اور فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت۔)
خلاصہ یہ کہ ذوالحجہ کے نو دنوں کا روزہ رکھنا مسنون اور با برکت عمل ہے، لیکن مسلمانوں نے اس کی طرف سے بڑی غفلت برتی ہے جو عین محرومی کی بات ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو اس سنت عظیمہ کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ ہمیں توفیق بخشے۔ اس کے علاوہ خاص طور سے یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے۔ احادیث پاک میں صراحت کے ساتھ اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالا اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنادے۔"
یوم عرفہ میں دعا کرنا: عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیا نے کی ہے وہ ہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر۔"  ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یوم عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔  اس لئے جو لوگ حج پر نہ بھی گئے ہوں، انھیں بھی چاہیے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں۔

سچی توبہ: یوں تو تمام اوقات میں مسلمانوں پر توبہ کرنا واجب ہے، لیکن سنہرے اوقات اور مباراک ساعات میں توبہ کی اہمیت اور بھی مزید ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس عشرہ کو غنیمت جان کر اللہ کے سامنے سچی توبہ کرنا چاہیے اور توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لئے کہ کوئی نہیں جانتا کی کہ کس وقت یہ زندگی کا چراغ گل ہو جائے۔ اور اگر کسی مسلمان کو اس سنہرے ایام اور مبارک اوقات میں نیک اعمال کی بجاآاوری کے ساتھ ساتھ سچی توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے، تو یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ فرمان الہی ہے: فأما من تاب و أمن و عمل صالحا فعسى أن يكون من المفلحين (ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے، یقین ہے کہ وہ کامیاب لوگوں میں ہوگا۔)

Fazilat of Dhil Hijjah

The first Ashara of Dhil Hijjah
Great Blessing of Allah
By: Hifzur Rahman Qasmi
Allah alone is the Supreme Owner and Creator of everything, living and non living, on this vast earth and He reserves all the right to disposal in them. Thus, He granted special position to some people over others; made some places nobler than others and declared some times more blessed as compared to others. Therefore many little good deeds done at such occasion, sometimes, carry much more reward and value than great deeds done at normal times. One of such occasions is the first Ashara, ten days Dhil Hijjah, the last month of the lunar calendar.
Allah Almighty has granted the first ten days of Dhil Hijjah special status and honor. Many verses of the Glorious Qur’an and Ahadith of the Prophet (saws) have appeared speaking of their glory; while the actions of the Companions also establish their nobility. Thus, the reward of the good deeds performed on this occasion surpasses the reward of the acts done in normal days. In the following paragraphs, let’s analyze the evidences from the Glorious Qur’an which speak of superiority of these days.
FIRST:  Allah Almighty says in the Glorious Qur’an والفجر وليال عشر (By the dawn, and by ten nights) which nights are referred here? Imam Baghawi writes that Hazrat Abdullah ibn Abbas (ra) narrates that the phrase “Ten Nights” refers to the beginning ten nights of Dhil Hijjah. He same has been opined by other exegesis scholars like Qatada, Mujahid, Zahhak, Suddi and Kalbi (ra).
After quoting the opinions of different scholars on the intended meaning of the “Ten Nights”, the author of “Tafseer Ibn Kathir” writes “The true is that the first ten days of Dhil Hijjah is intended here.” He also quotes a narration from Musnad Ahmad to support his opinion which reads: “The Prophet (saws) said, “The ten refers to ten days of Dhil Hijjah.”
Coming across to the opinions of these scholars, it gets established that the “Ten Nights” in the above mentions verse of the Glorious Qur’an refers to the whole ten days of the month of Dhil Hijjah. Now the notable point here is that Allah Almighty Himself is taking oath by the “Dawn” and the “Ten Nights”; while the fact is that the oath is taken only by the things which reserves utmost love and importance. Thus, the importance of these nights gets crystal clear, as Allah Himself took oath by them. This perfectly establishes the idea that these days hold paramount importance in the eyes of Allah.
SECOND:  At another place, Allah says: الحج أشهر معلومات (The Hajj is (in) the well-known months) Hafiz Ibn Rajab Hambali (ra) writes: “One of the causes of the blissfulness of the first ten days of Dhil Hijjah is that these are the last portion of the “well-known” months; and these are the months of Hajj about which Allah said “الحج أشهر معلومات” These months are Shawwal, Dhil Qa’da and the first ten days of Dhil Hijjah.
The author of Tafseer Ibn Kathir says that the “well-known” months, according to Imam Abu Hanifah, Imam Shafee and Imam Ahmad Ibn Hambal (ra), refer to Shawwal, Dhil Qa’da and Dhil Hijjah. Moreover, the author himself seems to be inclined to this very opinion. In addition to that, Imam Bukhari (ra) has reported a hadith in his Sahih from Ibn Umar (ra) which clearly reads: “The months of Hajj are Shawwal, Dhil Qa’da and (first) ten days of Dhil Hijjah.”
Performing Hajj is such a sacred act that it holds the place of first religious and spiritual wish for every sensitive Muslim. Thus, the days which have been declared as the “Months of Hajj” by the Glorious Qur’an itself will surely hold significance and sacredness. While the above mentioned face have fully proved that the first ten days of Dhil Hijjah is also among the months of Hajj. They, therefore, undoubtedly make a sacred and blissful occasion for Muslims to act and get rewarded.
THIRD:   Allah says: ويذكرسم الله في أيام معلومات (And recite the Name of Allah in specified days.) In this verse, Allah Almighty has explicitly enticed His slaves to recite His Names in specified days. This undoubtedly establishes the blissfulness of these days. Now the question is that what are these specified days? Again the answer is “First ten days of Dhil Hijjah”. Imam Bukhari (ra) reports a hadith from Ibn Abbas (ra) which reads, “These specified days refer to the first ten days of Dhil Hijjah.” Moreover, the same opinion has been expressed by other exegesis scholars, such as Hasan, Ata, Ikramah, Mujahid, Qatadah and Shafi (ra).
Human beings owe a great deal of favor from Allah Almighty. It, therefore, gets compulsory for human to recite the Name of his Beneficent Lord each and every time. Yet the Benevolent Creator has specified a span of time for the recital of His Name, which definitely lays foundation for these days to be sacred.
After pondering over these verses of the Qur’an, the sacredness of the first ten days of Dhil Hijjah is proved and provides sufficient ground for those who want to achieve nearness of Allah. Yet we have some ahadith of the Prophet (saws) as well, which clearly speak of the sacredness of these days. Some of them are mentioned here.
The Prophet (saws) says: “No day is better than these ten days in which the good deeds are more beloved to Allah. The Companions asked if the Jihad in way of Allah also is not (so beloved). The Prophet (saws) replied, “Not even the Jihad in the way of Allah, but the Jihad of the one who gets out in the way of Allah with his life and wealth but returns with nothing.”
Explaining this hadith, Hafiz Ibn Rajab Hambali (ra) writes: “When the good deeds done on this occasion is more beloved to Allah as compared to the deeds done in normal days of the year, the little acts of these days will bring much more reward than the high acts done in other days. This was the reason why the Companions asked if the Jihad performed in other days of the year is also not so beloved. The Prophet (saws) replied, “Not”.
Another hadith which has been recorded by Ahmad and Darmi reads: “There is no act more purified to Allah and more reward-fetching than the acts done during the first ten days of Dhil Hijjah. He was asked, “even the jihad in the way fo Allah?” he replied, “Even the jihad in the way of Allah, but the jihad of the person who goes out with his life and wealth and does not return with anything.”
Causes of Fazeelat:
Allah alone is the creator and owner of everything. He sometimes takes the things of least importance to the high in the sky, while at the other time He brings the things of high respect and honor down to earth. Whenever He wants, He grants superiority to something over the things of similar kind. Thus, this no surprising matter, if he granted superiority to the ten days of Dhil Hijjah over normal days of the year. But the things of this world have been constituted under the system of cause and effect. Therefore, the man is always in search of the reasons and causes to every happening. About the sacredness of the first ten days of Dhil Hijjah, the scholars have given some reasons. Hafiz Ibn Hajar (ra) says, “The reason of the ten days of Dhil Hijjah being so sacred and distinct seems that all the basic worships like Namaz, fast, Sadaqa and Hajj gather in these days; and they do not gather in other days.”
One the reasons of the Fazeelat of these ten days is that the days Arafah occur during them on which Allah Almighty completed the Faith and and His bounties upon Muslims. Naturaly the days on which somebody get a memorable bounty gets memorable for him. Imam Bukhari (ra) has recorded a hadith from Umar (ra). A Jew said to Umar (ra) that your book consists of the verse which you read. If this verse would have been revealed to us, we would celebrate of the day of its revelation. Hazrat Umar (ra) asked, “Which verse?” He replied: اليوم أكملت لكم دينكم... Umar (ra) says, “We know the day and the place on which this verse was revealed. The Prophet (saws) was staying at Arafa and it was Friday.
One reason to it is that the last day of them is the day sacrifice about which the Prophet (saws) said that the most beloved day to Allah is the day of sacrifice and stay. This hadith clearly establishes the Fazeelat of the day of sacrifice which is the last day of the first ten days of Dhil Hijjah. Thus, the sacrifice day makes the whole ten days special.
Conclusion:
The above mentioned verses and ahaidth make the Fazeelat of the ten days of Dhil Hijjah crystal clear. This is the reason why the blessed companions, mystic men and sincere Ulama would take great care of worship during these days. To these blessed persons, the sole purpose of life was to achieve the pleasure of Allah. Therefore, they always were in quest of the places and times in which the rewards of things get increased to many fold, so that they could prepared the provisions for their afterlife journey by doing special deeds and worships. In sharp contrast to them, common Muslims show drastic carelessness towards such auspicious occasions, which leads them to irreparable loss. Therefore, they should also try to avail these occasions and achieve the nearness of Allah. In following line, the good deeds which have been prescribed to perform are being mentioned.
Dhikr of Allah’s Name:
During these days, it is msnoon to excessively recite takbeer, tahmeed and tahleel. According to a hadith, the Prophet (saws) said, “To perform the righteous deeds in these days is such a great and beloved act to Allah that no any other days. You should, therefore, recite excessively لا إله إلا الله، الحمد للہ and اللہ اکبر.
The wordings of the takbeer for these days are: (1) اللہ اکبر اللہ اکبر کبیرا (2) اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ Takbeer is permissible in two ways: (1) Takbeer Mutlaq (Abdolute Takbeer) which to means to recite the takbeer evertime at every place where and when it is allowed to recite the name of Allah. Its time begins from sighting the moon of Dhil Hijjah. (2) Takbeer Muqayyad (Defined Takbeer). Its time begins from the Fajr of ninth Dhil Hijjah and lasts till the Asr of 12th Dhil Hijjah. It should be recited specially after every Namaaz. Men should recite it in high tone, while the women are suggested to recite in low tone.
In today’s world, the Sunnah of reciting takbeer has vanished. Very few people are seen taking care of the takbeer. We should, therefore, take care the takbeer to revive a sunnah of the Prophet (saws). The Prophet (saws) is reported to have said, “The one who revived a sunnah of mine which had been left, he will get reward equal to those who actually performed it without any cut up from the reward of the practitioner.” Therefore, we should excessively recite the names of Allah during these days.
Keeping Fast:
During these days, any good deed fetches much more reward than normal acts. As far as the fast is concerned, it is so great an act that Allah says, “I Myself am the reward for fast.” Keeping fast, therefore, becomes a great source of reward during these days. Moreover, the Prophet (saws) himself is reported to keep fast in the first nine days of Dhil Hijjah. The blessed mothers of the believers narrate, “The Prophet (saws) used to keep fast in the first nine days of Dhil Hijjah, on the days of Aashura and three days every month.” Hafsa (ra) says, “Four things, the Prophet (saws) would not skip: the fasts of Aashura, first nine days of Dhil Hijjah, three days every month and two rak’ats before Fajr.”
In short, keeping fast in the nine days of Dhil Hijjah is masnoon and a blessed act. But Muslims have brushed it asid which is indeed deprivation of the great bounty. Apart from that, the fast of the ninth Dhil Hijjah is specially sunnah. The ahaidth clearly speaks of its blissfulness. Hazrat Qatada (ra) reprts that the Prophet (saws) said, “keep fast on the day of Arafa. I hope Allah makes it Kaffarah for sin of one previous and one later years.”
Supplication on the Day of Arafa:
It is such a blissful act to supplicate on the day of Arafa. The Prophet (saws) is reported to have said, “The best of all supplications is that which is done on the day of Arafa and the most blessed supplication which I and the Prophet before me have done is لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ولہ الحمد و ھو علی کل شیئ قدیر. Ibn Abdul Bar (ra) says that this hadith also points out to the fact that the prayers of the day of Arafa are mostly answered. Therefore, even those who did not go for hajj should make special supplications on this day.
True Repentance:

It is obligatory on every Muslim to repent to Allah every time. But its importance is increased even more on auspicious occasions. We should, therefore, take this Ashara as a golden opportunity to repent and we must not delay in it. The reason is that we never know when to leave this earthly world for the eternal one. If a Muslim is enabled to repent to Allah with sincerity, he indeed is a blessed person.