Tuesday 27 November 2018

حصول انصاف میں آسانی کی راہ


از: پروفیسر فیضان مصطفی
ترجمہ: حفظ الرحمن قاسمی
شرعی عدالتیں تنازعات کے حل کی متبادل مشینری ہیں جو سول عدالتی نظام کے زوال کی تلافی کرتی ہیں اور غریبوں کی ضرووریات کی تکمیل کرتی ہیں
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ ملک کے طول و عرض میں شرعی عدالتوں کے قیام کی تجویز سے ممکن ہے کہ ہندو دائیں بازو  کو شہ ملے۔ مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت میں متوازی عدالتیں ہیں؟ ان عدالتوں سے کون اور کیوں رجوع کرتا ہے؟ کیا اس کا مطلب عدالتی نظام کی نجکاری ہے؟ کیا سول عدالتوں کی ناکامی ایک عالمی منظر نامہ ہے؟
دار القضا [شرعی عدالتیں] اپنے سخت ترین معنوں میں بھی عدالت نہیں ہیں، بلکہ یہ محض کاوسلنگ اور ثالثی کے مراکز ہیں۔ یہ قابل رسائی، مفید، غیر رسمی اور رضاکار ادارے ہیں جو غریبوں کو تیز رفتاری کے ساتھ کم خرچ میں انصاف مہیا کرتے ہیں۔ عدالت علیا نے وشنو لوچن مدان مقدمے [2014] میں اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ شرعی عدالتیں درحقیقت عدالت نہیں ہیں، اس لئے کہ ہندوستان کا قانونی نظام کسی متوازی عدالتی نظام کی توثیق نہیں کرتا۔ تاہم عدالت علیا نے ان شرعی عدالتوں کو غیر قانونی ماننے سے بھی انکار کر دیا۔
سوال عدالتی نظام کا زوال ہمارے وقت کا ایک عام مظہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ "تنازعات کے حل کی متبادل مشینری" (ADR) آج کے زمانے میں ایک عام سی چیز ہو گئی ہے۔ امریکا کے بہت سے کارپوریٹ گھرانے حکومت کے ذریعہ متعین کردہ ججوں کے مقابلے نجی ثالث کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں۔ 1980 کی دہائی سے تنازعات کے حل کے سلسلے میں امریکا میں ایک "خاموش  انقلاب" آیا ہے۔ امریکا کی ریاستی اور فیڈرل عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی تعداد میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ برطانیہ میں بھی تمام عائلی تنازعات کو لازمی طور پر ثالثی مراکز کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اس رجحان کو بجا طور پر "سول عدالتوں کا اقتصادی تزکیہ" کا نام دیا گیا۔ "تنازعات کے حل کی متبادل مشینری" کو حکومتیں بھی حمایت پیش کرتی ہیں، کیونکہ ان کے ذریعے سے عوام کے پیسے کا بچت ہوتا ہے۔ چنانچہ 2008 میں برطانیہ نے پانچ شرعی عدالتیں قائم کیں جن کے فیصلے انگریزی عدالتی نظام کی پوری قوت کے ساتھ نافذ ہوتے ہیں۔ اسرائیل بھی شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو ریاست کی سول عدالتوں کے فیصلے کے طور پر نافذ کرتا ہے۔ "تنازعات کے حل کی متبادل مشینری" ایک طرح سےنظام انصاف کی نجکاری ہے، اس لئے کے فریقین اس میں نہ صرف یہ کہ اپنے جج خود نامزد کرتے ہیں، بلکہ اپنے ذاتی قوانین بھی بناتے ہیں یا دیگر ملکوں کے قوانین اپناتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہندوستان میں بھی بہت سارے کارپوریٹ کے تنازعات ثالث کے ذیعے حل ہوتے ہیں۔ سول پرووسیجر کوڈ کی دفعہ 89میں آربی ٹریشن، میڈییشن اور کونسی لییشن کی بات کی گئی ہے۔ کمرشیل کورٹ آرڈینینس 2018 جس کے ذریعے کمرشیل کورٹ ایکٹ 2015 میں ترمیم ہوئی کمرشیل تنازعات کے لئے میڈییشن کو لازمی قرار دیتا ہے۔ میڈییشن کے ذریعے تنازعات کے حل کا وہی اثر ہوگا جو آربی ٹریشن اینڈ کونسی لییشن ایکٹ 1996 کے ثالث کے فیصلے کا ہوتا ہے۔ اسی طرح کنزیومر پروٹیکشن بل 2018 میں بھی میڈییشن کی بات کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے زیادہ تر ججز سبکدوشی کے بعد ثالثی کا کام کرتے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے ان کی ثالثی بہت  قیمتی ہوتی ہے، جس کی سماعتیں عام طور پر پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ہوتی ہیں اور بسا اوقات بیرون ہندبھی۔
نوآبادیاتی دور میں تقریبا ایک صدی تک قاضی حضرات عدالتی کاموں کی تکمیل میں ججوں کو اپنا تعاون پیش کرتے تھے۔ جب قاضی ایکٹ 1880 نے قاضیوں کو ان کے عدالتی اختیارات سے محروم کر دیا تو شرعی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ سامنے آیا۔ مگر اس مطالبے کی تکمیل نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ سے بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں صوبہ بہار میں اس طرح کی عدالتوں کے قیام کے لئے نجی اقدامات کیےگئے۔ بہار کی ان شرعی عدالتوں کو معاملات کے حل کے لئے واضح کارروائی اورمنظم طریقے سے شہادتوں کو رکارڈ کر کے فیصلے صادر کرنے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ فیصلوں کے اقتباسات رسمی عدالتوں میں بھی پیش کیے گئے ہیں۔ صوبہ بہار میں 60000سے زائد مقدمات کو ان عدالتوں نے دوستانہ انداز میں حل کیا ہے۔ یہ مقدمات ایک سال سے بھی کم مدت میں خارج کر دیے گئے۔ پچھلی دہائیوں میں ان عدالتوں میں پیش کیے جانے والے مقدمات کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو نا کے برابر ہی سول عدالتوں میں چیلنج کیا جاتا ہے۔ بعد میں جا کر اس طرح کی عدالتیں بنگال اور اڑیسہ میں بھی قائم ہوئیں۔
ماہر سماجیات انندیتا چکربرتی نے لکھنو اور کانپور کے دارالقضا [شرعی عدالتوں] کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچیں کے 95 فیصد مسلم عورتوں نے اپنی رضامندی سے ان عدالتوں کا رخ کیا۔ یہ عورتیں رسمی سول اور کرمنل عدالتوں کا بھی استعمال کرتی ہیں۔ چکربرتی اس نتیجے پر بھی پہنچیں کے زیادہ تر عورتیں اپنے شوہروں سے طلاق لینے کے لئے ان عدالتوں کا رخ کرتی ہیں۔ الی نوس یونیورسٹی کی اسکالر واتوک نے چنئی اور حیدرآباد کی رسمی عدالتوں کا مطالعہ کیا اور ساتھ ہی ان دونوں شہروں کے قاضیوں کے پاس آنے  والے مقدمات پر بھی غور کیا۔ اپنی کتاب Marriage and its Discontentsمیں واتوک کہتی ہیں کہ بیشتر مسلم عورتیں رسمی عائلی عدالتوں کے بجائے قاضیوں کی ثالثی اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسی عورتیں زیادہ تر وہ ہیں جو اپنے شوہروں سے طلاق لینا چالتی ہیں۔ واتوک اس نتیجے پر پہنچیں کہ ریاست کی عائلی عدالتیں ناقص سہولیات رکھتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ 1991 میں مسلم چنئی کی کل آبادی کا صرف 8٫7 فیصد تھے، تاہم 1988 سے 1997 کے درمیان کسی بھی سال عائلی عدالتوں میں پیش آنے والے مقدمات میں سے 4 فیصد سے زیادہ مسلمانوں سے متعلق نہیں تھے۔ واتوک یہ بھی کہتی ہیں کہ چنئی کے تقریبا تمام مسلمان مردوں نے ازدواجی حقوق کی بحالی کے لئے عائلی عدالتوں کی ثالثی اختیار کی۔ واتوک نے حیدرآباد میں دو قاضیوں کے 1993 رجسٹروں کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ زیادہ تر مقدمات ان عورتوں کے ذریعے کیے گئے تھے جو اپنے شوہروں سے طلاق چاہتی تھیں۔ ہندوستان کے کچھ حصوں میں عورتوں کے ذریعے بھی شرعی عدالتیں چل رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بی ایم ایم اے [بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن]بھی شرعی عدالتیں چلاتا ہے۔
2017 میں ہم نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے 15 ریاستوں میں چلائے جانے والی 74 شرعی عدالتوں کا مطالعہ کیا۔ صوبہ مہاراشٹر میں -جہاں 23 شرعی عدالتیں قائم ہیں - سب سے زیادہ ایسی عدالتیں ہیں، اس کے بعد یوپی کا نمبر آتا ہے جہاں 22 شرعی عدالتیں ہیں۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ مردوں کے مقابلے زیادہ تر عورتیں ان عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں۔ زیادہ تر مرد [49 فیصد] اپنے ازدواجی حقوق کی بحالی کے لئے ان عدالتوں کی ثالثی اختیار کرتے ہیں، جب کہ عوتوں کی اکثریت طلاق[31٫9]یا خلع [27٫7] لینے کے لئے ان عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ یہ عدالتیں کبھی بھی تین طلاق نہیں دلواتیں۔ وہ ہمیشہ طلاق کے قرآنی طریقے کو اپناتی ہیں۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ زیادہ تر مقدمات میں قاضیوں نے زر کفالت کی ادائیگی کو یقینی بنایا ہے۔ 89 فیصد مقدمات میں ہم نے پایا کہ شرعی عدالتوں کے استعمال کی فیس 1000 سے کم تھی۔
چنانچہ شرعی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز میں کچھ بھی نئی بات نہیں ہے۔ بورڈ کی تجویز پر مباحثے کو پولرائزیشن کے لئے ایک چال کے طور پر استعمال نہیں کیاجانا چاہیے۔ تقریبا 100 ایسی عدالتیں کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہیں۔ یہ عدالتیں غریب عورتوں کو تیز رفتار اور ارزاں انصاف مہیا کرتی ہیں۔ کسی کو بھی ان عدالتوں سے رجوع کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے فیصلے اجباری نہیں ہیں اور ان کو قانونی تقدس حاصل نہیں۔ تاہم اگر تمام متعلقہ فریق ان کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہیں تو یہ مکمل طور پر قانونی عمل ہے۔ کھپ پنچایت کے بر خلاف یہ عدالتیں کرمنل مقدمات کا تصفیہ نہیں کرتیں اور اپنے فیصلوں کو زبردستی نافذ نہیں کرتیں۔
تاہم تمام شرعی عدالتوں میں ایک عورت بھی ہونی چاہیے۔ متبادل کے طور پر ہم مکمل طور پر عورتوں پر مشتمل شرعی عدالت بھی بنا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف عورتوں پر مشتمل شرعی عدالتیں ممبئی میں بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔

No comments:

Post a Comment